سر مد نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں اس کی نگاہوں کے سامنے امی کا آنکھوں سے لبریز چہرہ آگیا،جسے دیکھ کر اس کی آنکھیں نم ہوجایا کر تی تھیں ۔ امی اس کے لیے ایک دوست سے کم نہ تھیں ۔ سب بھائی بہنوں سے زیادہ سر مدہی کو اپنی ماں کی قربت حاصل تھی ۔سر مد کے والد ایک اعلی تعلیمی ادارہ میں استاد تھے اور اس کی امی محض ایک گھریلوخاتون تھیں ، جو اپنے بچوں سے بے حد محبت کر تی تھیں ۔ سرمدکو جب یہ بات پتہ چلی کہ اس کی امی ذہنی طور پر بہت پریشان رہتی ہیں تو اس نے اس بات کی وجہ جاننی چاہی ۔ کافی کریدنے کے بعد جب اس پر حقیقت عیاں ہوئی تو اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ۔ حقیقت کو ماننا اس کے لیے بے حد مشکل تھا لیکن اس کے غلط ہونے کی بھی گنجائش نہیں تھی ۔ وہ اس بات سے واقف تھا کہ والد صاحب اپنی طالبات میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ لیکن یہ حقیقت اس پر عیاں نہ تھی کہ وہ اس عمر میں بھی ایسی حرکتیں کر تے ہوں گے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ آخر کس طر ح امی نا جانے کب سے یہ سب جھیل رہی ہوںگی ۔یہ سوچ کر وہ شرمندہ ہوجاتا کہ جس ماں کو وہ اپنی دوست بھی سمجھتا ہے ان کی تکلیف کو وہ ان کی آنکھوں میں نہ دیکھتا تھا ۔ اس نے سوچا کہ کیا ہوا اگر میں پہلے نہ جان سکا اور نہ کچھ کرسکا، ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے کہ گزرتے وقت کا دامن تھاما جاسکتا ہے ۔ ایک مستحکم عزم کے ساتھ اس نے اپنی ماں کو فون کیا ۔ سلام کے بعد اس نے کہا امی آپ سے ملنے کی خواہش ہورہی ہے ۔ آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں ۔ رابعہ بیگم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ، بیٹا آجاؤ ۔ اپنے گھر میں آنے کے لیے تمہیں میری اجازت کی ضرورت نہیں ۔پھر سرمد نے اپنے والد کو فون کیا ان سے بھی وہی جملے کہے جو رابعہ بیگم سے کہے تھے ۔ دوسرے دن سرمد اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر ماں کے پاس جانے کے لیے روانہ ہوگیا ۔ راستہ میں سوچنے لگا کہ آخر کس طر ح بات شروع کروںگا گھر جاکے ۔ جب وہ گھر پہنچا دونوں اسے دیکھ کر خوش ہوگئے ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ایک عورت کے اندر برداشت کی قوت کس حد تک ہوتی ہے ۔یوں تو اس کی تشبیہ گلاب کی پنکھڑی سے دی جاتی ہے لیکن اس کی ہمت دیکھ کر مر د ہونے پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے ۔ عورت سب کچھ جان کر بھی برداشت کر تی رہتی ہے ۔ لیکن جب یہی بات ایک مر د پر عیاں ہوجائے تو وہ اس عورت کو صرف شک کے گھیرے میں ہی نہیں لیتا بلکہ اپنی زندگی سے بے دخل کرنے میں بھی دیر نہیں کرتا ہے ۔ سرمد ابھی غور و فکر میں گم تھا کہ مظہر صاحب نے اسے کھانے کے لیے آواز دی ۔ سب نے کھانا شروع کیا تو سرمد خیالوں میں گم یہ سوچ رہا تھا کہ آخر کس طرح بات شروع کی جائے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ مظہر صاحب اس کے والد ہیں وہ بے ادبی بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ تبھی اس نے بولنا شروع کیا ۔ امی میں ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوں مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو میں آپ کے پاس آگیا ہوں ۔ مظہر صاحب نے کہا کہ بیٹا آخر کیا بات ہے ۔ رابعہ بیگم بھی پریشان ہوئی ۔ سرمد نے بتا یا کہ جہاں میں کام کرتا ہوں وہاں ایک لڑکی ہے جس کا نام سائمہ ہے میں اسے پسند کرنے لگا ہوں ۔ میں نے یہ بات شاہدہ سے چھپانی چاہی لیکن نہ معلوم کس طرح وہ جان گئی اور اب گھر کے ماحول میں میرا دم گھٹنے لگا ہے ۔ اس لیے نہیں کہ وہ مجھ سے کچھ کہتی ہے بلکہ اس کی خاموش نگاہیں مجھ سے ہزاروں سوالات کرتی ہیں جن کا کوئی جواب میرے پاس نہیں ہے ۔ پاپا مجھے کوئی راستہ بتا دیجیے ۔ اس نے روہانسی صورت بناکر کہا ۔ سرمد کا ایک ایک لفظ مظہر صاحب کے دل میں چبھ رہا تھا ۔ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہورہا تھا ۔ تبھی انہوں نے ایک نظر رابعہ بیگم کی طرف دیکھا اور سرمد سے کہا ۔ بیٹا ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے واپس آجاؤ ۔ سمجھو، جب جاگے تبھی سویرا ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ پھر انہوں نے رابعہ بیگم کو آواز دی ۔ مظہر صاحب شرمندہ سے پلنگ پر بیٹھے تھے ۔ ان کی آنکھیں نم تھیں ۔ بیگم کو دیکھتے ہی کہا ۔ مجھے معاف کر دو ۔ نادانی مجھ سے بھی ہوئی ہے جس کا علم تمہیں ہے ۔ رابعہ بیگم نے فراخدلی کا مظاہر کرتے ہوئے اپنے شوہر کو معاف کردیا ۔ سرمد اپنے روم سے والدین کی باتوں کو سن رہا تھا کہ اچانک اس آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
���
پی ایچ ڈی ۔۔اردو،یونیورٹی آف دہلی،