زندگی ایسی بھی
امجد کے بھائی نے واٹس ایپ پہ گروپ کھولا تھااور اس میں سبھی رشتہ داروں کو ایڈ کیا تھا۔اس کو بھی کیا تھا۔اس کے کچھ رشتہ دار سرکاری ملازم تھے اور کچھ اچھے تاجر۔لاک ڈائون میں سبھی رشتہ داروں کے بچے کبھی شام کے وقت اور کبھی دن میں بھی اپنے اپنے گھروں میں تیار کی فئی ڈشز کی تصاویر گروپ میں ڈالتے تھے ۔۔کبھی سموسے۔۔کبھی پھل۔۔کبھی مٹھائیاں ۔۔کبھی مصالحہ مرغ۔۔۔ وغیرہ۔۔۔۔ امجد کے دونوں بچے دس سال کی کوثر اور آٹھ برس کا ندیم۔۔انُ سبھی نعمتوں کو دیر تک تکتے رہتے تھےکیونکہ ان کے گھر میں صرف دال چاول پکتا تھا اور کچھ نہیں۔۔باپ ان کا مزدور تھا۔دن کو کماتا تھا اور رات کو بیوی بچوں کا پیٹ بھرتا تھا۔اس نے ایک بار دونوں بچوں کو دیکھا جو للچائی نظروں سے مختلف قسم کے پکوانوں کو تکے جارہے تھے۔۔آنکھوں میں سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔۔جی میں آیا کہ دونوں بچوں کو گلے سے لگا کر خوب رولے۔ ۔۔مگر جذبات پہ قابو پاکر سوگیااور رات بھر کروٹیں بدلنے لگا۔۔۔کچھ دیر بعد پھر بستر سے نکل کر اپنا فون ،جس پہ کبھی کبھی بچے واٹس ایپ چلاتے تھے، اُٹھا لیا۔۔۔ بھائی کی طرف سے بنائے گئےگروپ میں گیا۔۔۔ گروپ کا نام رکھا گیا تھا” ہم سب ایک ہیں “ اسے یہ نام مذاق سا نظر آیا۔اور” لیو“ Leave آپشن میں جاکر ۔۔۔۔گروپ سے نکل گیا۔۔۔اور پھر دونوں بچوں کے پاس آکر ان کے ساتھ لپٹ کر سوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔
سکون
اس کے پاس پیسہ تو بہت تھامگر صحت اچھی نہیں رہتی تھی۔۔اور سب سے بڑا مسئلہ جس نے اسے پریشان کر رکھا تھا وہ تھا کئی مہینوں سے نیند کا نہ آنا۔لیکن دس پندرہ دنوں سے اس نے محسوس کیا کہ اسے نیند بھی اچھی آرہی ہے اور صحت بھی اچھی ہے۔۔وہ آجکل خوش تھا۔۔۔۔رات وہ سویا تو صبح مست نیند سے جاگ کر۔۔۔بیوی سے بولنے لگا۔۔۔۔” راجو کی ماں ۔۔وائرس کے خوف سے مزدور اپنی اپنی ریاستوں کی طرف لوٹ کر کیا گئے کہ خود کھیت میں جانا پڑا۔۔۔پندرہ برس بعد میں نے پھر سے کھیت میں محنت کی۔۔۔محسوس کر رہا ہوں کہ صحت بھی اچھی ہے اور نیند بھی خوب آتی ہے۔۔۔۔“
بیوی اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔
وہ دیکھتا ہے
احمد روز اپنے باغیچے میں چڑیوں کے لئے ایک برتن میں پانی رکھ آتا تھا۔۔۔ایک روز وہ پانی بدلنے گیا تو دیکھتا ہے کہ ایک چیونٹی پانی میں گر گئی ہے۔ ابھی زندہ ہے اور پانی میں اپنے پیر مار رہی ہے۔۔اس نے ایک لکڑی کا ٹکڑا لیا اور چیونٹی کو باہر نکال کر بچا لیا۔۔۔۔اور گھر کے اندر آیا۔۔۔۔ایک دو گھنٹہ بعد اس کا بیٹا گھر آیا اس کے ہاتھ پہ چوٹ تھی ۔۔سب گھر والوں نے گھبرا کر وجہ پوچھی تو وہ بولا۔۔۔” بائیک چلاتے چلاتے ایک کار کے ساتھ میں خطرناک طریقہ سے ٹکرایا۔۔۔لیکن معمولی چوٹ آئی ۔۔وہاں موجود سبھی لوگوں کو حیرت ہوئی کہ میں بچ کیسےگیا۔۔۔ایک بزرگ مجھ سے بولا” گھروالوں کا یا تمہارا کوئی نیک کام ہے جو جان کا صدقہ بن کے کام آیا ہے۔۔۔۔۔۔“ وہ بولے جا رہا تھا اور احمد کسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔اسے یاد آرہا تھا ۔۔۔۔۔کہیں چیونٹی کا بچانا۔۔۔“
حسینی کالونی، چھتر گام، چاڈورہ کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
Contents