ڈل جھیل
برسوں بعد آج میں ڈل جھیل کے کنارے آ بیٹھا۔مجھے بچپن کے وہ دن یاد آگئے جب میں پاپا کے ساتھ یہاں آتا تھا۔
میں پاپا سے پوچھتا تھا۔ "کیا یہ جنت کی نہر ہے؟"
اس معصوم سوال پر وہ کہتے تھے۔"ہاں، یہ جھیل خدا نے جنت سے بھیجی ہے۔"
بہت دیر تک میں کتاب ماضی کی اوراق گردانی کرتا رہا۔اچانک میری نظر ایک شخص پر پڑی جو مجھ سے تھوڑی دور ی پر مچھلیوں کے شکار کے لئے جھیل کے کنارے خاموش بیٹھا تھا۔
میں کچھ سوچ کر اس کے پاس پہنچا اور تھوڑی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔پھر پوچھ بیٹھا۔
"بھائی صاحب، بہت دیر سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ بڑے سکون کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن آپ کے وجود میں کوئی ہلچل نہیں،کوئی بے چینی نہیں،کوئی ولولہ نہیں۔۔۔۔ بس خاموش بیٹھے ہیں،جبکہ دوسرے۔۔۔"
میری بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ بول پڑا۔
"صاحب ، آپ کو سکون باہر سے دِکھ رہا ہے۔۔۔میرے اندر کیا ہو رہا ہے یہ میں ہی جانتا ہوں۔"
"میں سمجھا نہیں؟" میرے سوال میں بے چینی تھی۔
اس نے اسی سکون سے جواب دیا۔ "ذرا اس ڈل جھیل پر نگاہ ڈالئے۔۔باہر سے کتنا پر سکون لگ رہا ہے ،مگر اس نے اپنے اندر کتنے درد،کتنے کرب چھپا رکھے ہیں کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔بس سمجھے میں بھی ڈل جھیل ہوں۔"
عکس
ایک دکان کے پاس اپنے دوست کے آٹھ سالہ بیٹے کے ہاتھ میں سگریٹ کا پیکٹ دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔
میں نے اس کے قریب جاکر پوچھا۔"تم سگریٹ پینے لگے ہو؟"
اس نے مجھے اچانک دیکھ کر پہلے تو سلام کیا۔ پھر میرے سوال کا جواب دیا۔
"نہیں انکل۔۔۔یہ تو پاپا نے مجھ سے منگوائی ہے۔"
مجھے کافی اطمینان محسوس ہوا۔
لیکن دو مہینے کے بعد اسی دکان کے پاس ایک بار پھر میری نظر اس پر پڑی اور اس بار جلتی ہوئی سگریٹ اس کے ہاتھ میں تھی۔
تلگام پٹن، موبائل نمبر9797711122