نظام پور کی بستی میں آج خوشی کی لہر ہے۔ کیوں نہ ہو!اس بستی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے آج ایک نئی تاریخ جو رقم کی ہے۔ نوبل انعام ملنا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے، وہ بھی فزکس کے شعبے میں۔۔۔
پورے ملک سے شائع ہونے والے اخبارات اور سائل میں رضوان کی کامیابی کی تفصیل مع تصویر صفحۂ اوّل پر شائع ہوئی ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ غرض ہر جگہ رضوان ہی رضوان ہے۔ رضوان آجکل ہارورڈ یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ کچھ دنوں قبل اُس نے اسی یونیورسٹی کے (Astrophysics) کے شعبہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
رضوان ایک ہونہار طالب علم ہونے کے ساتھ ہی سنجیدہ مزاج بھی ہے۔ ہر وقت گُم سُم اور نِت نئے خیالات میں ڈوبا رہنے والا۔ دن کو فرصت نہ رات کو آرام۔ ہمہ وقت فزکس کی کسی نہ کسی گتھی کو سمجھنے اور سمجھانے میں ڈوبا رہتا ہے۔
ایک دفعہ اس کے دوست 'اظہر نے اس کی سنجیدہ مزاجی کی وجہ دریافت کی، تو اُس نے بھاری من کے ساتھ جواب دیا؛
"میرے عزیز! یہ تار نہ چھیڑو۔۔۔ میرے یار، اس دل کے نہاں خانے میں درد ہزار ہیں۔ کسی روز تمہارے استفسار کا جواب تفصیل کے ساتھ ضرور دوں گا"۔
اظہر رضوان کا سب سے قریبی دوست ہے۔ وہ بھی ہارورڈ کے شعبۂ 'نینو ٹکنالوجی سے بطور 'پوسٹ ڈاک ریسرچر وابستہ ہے۔ دونوں حسبِ معمول شام کو کافی پینے نیز روز مرہ کے مختلف موضوعات پر گفت شنید کی غرض سے ملتے رہتے ہیں۔
نوبل انعام کی اطلاع ملتے ہی اظہر بھا گتا ہوا رضوان کے پاس پہونچا اور بے ساختہ اسے گلے لگا لیالیا۔۔۔ ڈھیروں مبارک بادیاں اس کو دے ڈالیں۔ آج پہلی بار ایک سنجیدہ دل اور بظاہر سخت دل رضوان کی آنکھوں میں گرم گرم آنسو تھے۔ آج اسے سب سختیاں اور مسائل و مصائب سے بھرے ایام ایک ایک کر کے یاد آ رہے تھے، جو اسے 'نظام پور کے 'پرائمری اسکول سے لے کر 'بنگلور تک اور وہاں سے لے کر ہارورڈ تک برداشت کرنے پڑے تھے۔
اس کی پوری زندگی ایک جد وجہد رہی ہے۔ رضوان کی عمر یہی کوئی پینتیس برس ہے، لیکن حالات کی ستم ظریفی نے اسے پینتالیس برس کا بنا دیا تھا۔
رضوان کو اب نوبل انعام ملا تھا اور پوری دنیا میں اس کے نام شہرہ تھا، تاہم نہ جانے کیوں اس کے چہرے پر ایک نا معلوم سی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کہیں کوئی خلاء سا ہو، کچھ خالی پن سا ہو۔ دل کے کسی گوشے میں کوئی درد چھپا بیٹھا ہو اُسے تڑپا رہا ہے، کسی پل اسے سکون نہ لینے دے رہا ہو اور جیسے پھر کسی نے اس کے درد و غم کے تار چھیڑ دیئے ہوں۔۔۔۔
اظہر نے یہ بھانپ لیا تھا اور کاندھے پر ہاتھ رکھتے انتہائی مشفقانہ لہجے میں اُس سے کہا:
میرے یار! درد بانٹنے سے کم ہوتا ہے اور درد کو پالنے سے دل پر مزید بوچھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کم از کم مجھے تو اپنی اداسی کی وجہ بتاو۔ ہو نہ ہو میری کسی بات سے تمہارے دل کو قدرے سکون میسر آجائے۔ آج تمہارے پاس سب کچھ ہے۔ دنیا کی کم و بیش ساری یونیورسٹیوں کے دروازے تمہارے لئے وا ہیں بلکہ وہ تمہاری حصولیابی پر نازاں ہیں۔ عزت، شہرت اور دولت کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے، پھر بھی ایسی کونسی بات ہے جس نے تمہارے مخلص دل کو اس خوشی کے موقع پر سوگوار کر رکھا ہے۔ ابھی اظہر کچھ کہہ ہی رہا تھا کہ رضوان نے اسے روکتے ہوئے کہا:
"میرے دوست، اس کائنات میں انسان کتنا بے بس ہے۔ اگر نوبل انعام ملنے سے میرے جملہ مسائل کا تصفیہ ہوجاتا تو میں بھی آج خوشیاں مناتا، مبارکبادیاں قبول کرتا، مگر نہیں۔۔۔۔ خیر تم میری اُداسی اور بے بسی کا سبب جاننا چاہتے ہو تو سنو:
"یہ آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے جب میں گریجویشن کے بعد 'آئی آئی سی بنگلور میں ماسٹرز کر رہا تھا۔ نوجوانی کے ایام تھے، جذبات عروج پر تھے اور میری عمر نے یہی کوئی بائیس بہاریں دیکھی تھیں۔ زندگی میں کئی ایک خواب تھے جن کو شرمندہُ تعبیر ہونا تھا۔ جن کے لئے میں دن رات محنت و مشقت کر رہا تھا۔
ہر سمسٹر میں میرا گریڈ سب سے اوپر ہوتا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ میری منزل قریب ہے۔ مجھے یہ یقین نہیں تھا کہ دو سال ماسٹر ختم کرنے کے بعد میرا ایڈمیشن دنیا کی کسی اچھی یونیورسٹی میں ہوگا۔ اسی امید، محنت اور لگن سے میں نے دو سمسٹر پاس کئے۔ گو زندگی مشکل ضرور تھی مگر خوبصورت بھی تھی۔ کچھ حاصل کرنے کی محنت کا اپنا الگ ہی مزہ ہے۔ سب کچھ اچھی طرح چل تھا اور مجھے امید تھی کہ یہ سال نکلنے کے بعد اچھے گریڈ سے میرا ماسٹر مکمل ہو جائے گا اور میرا داخلہ دنیا کی کسی عمدہ یونیورسٹی میں ہو جائے گا۔
میں انہی خوبصورت خوابوں اور امیدوں کو ڈھونڈ رہا تھا کہ تبھی میرے دل میں محبت کی چنگاری نے جنم لیا۔ رابعہ میری سینئر تھی، جو میرے ساتھ ایک ریسرچ پیپر پر کام کررہی تھی۔ ہم اکثر ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ کام کی وجہ سے دن کے بیشتر اوقات ہمارے ایک ساتھ ہی گزرتے تھے۔ اسی دوران میرے دل کے نہاں خانے میں کہیں اس کے تئیں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگیا اور پھر خدا جانے یہی جذبہ کب محبت میں تبدیل ہوگیا۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ محبت کی شدت میں دھیرے دھیرے اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن میں نے اپنی محبت کا ابھی تک اظہار نہیں کیا تھا اور نہ ہی اسے اپنے اس جذبے سے باخبر ہونے کا موقع دیا تھا۔ دن گزرتے رہے اور میری محبت کی شدت میں گونا گوں اضافہ ہوتا گیا۔ جذبہ محبت مجھے اب اظہار کرنے پر اکسا رہا تھا۔ دل میں برابر کچوکے لگ رہے تھے۔ اب میں کسی خوبصورت موقع کی تلاش میں رہنے لگا کہ جب میں اس کے سامنے اپنی پرخلوص محبت کا اظہار کرسکوں۔ بلاآخر ایک روز وہ سنہری موقع ہاتھ آ ہی گیا اور میں نے اپنی تمام تر ہمتوں کو یکجا کرکے اس کے سامنے اظہار محبت کر دیا۔۔۔ پہلے پہل تو اس نے انکار کیا اور یہ جتانے کی کوشش کی کہ ہم اچھے دوست ہیں تاہم میرے مسلسل اصرار پر بلاآخر وہ رضامند ہوئی گئی۔ پھر کیا تھا اب پڑھائی مجھے ایک کھیل لگنے لگی۔ کچھ مہینوں کی مدت میں ہم نے دس سے بارہ تحقیقی مضامین لکھے۔ رابعہ بہت ہی خوبصورت مگر ضدی لڑکی تھی۔ وہ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ میرے دل میں اس کے تئیں محبت اپنی انتہا کو پہنچ رہی تھی۔ میرا وجود محبت کی آگ میں مسلسل تپ رہا تھا۔ میں اکثر سوچتا رہتا تھا کہ خدا جانے وہ میری تپش کو محسوس کر رہی ہے کہ نہیں۔
ان دنوں مجھے ایک ہی بات ستا رہی تھی۔ رابعہ ایک مہینے کے بعد اپنا ریسرچ ورک مکمل کر کے جانے والی تھی۔ میرے سمسٹر امتحانات نزدیک آ رہے تھے مگر میری افسردہ کیفیت کا الگ ہی عالم تھا۔ شاید رابعہ کو میری اس کیفیت کا اندازہ تھا، جبھی وہ مجھے یقین دلاتی تھی کہ رضوان تم اچھی طرح سے ماسٹر مکمل کرلو، پھر ہم ضرور بالضرور ملیں گے۔ اس ضمن میں، میں اپنے اہلِ خانہ سے بات بھی کروں گی اور بھر انہیں اپنی محبت کے بارے بتائیں گے اور اپنے فیصلے پر ان کی رضامندی بھی حاصل کریں گے۔ مگر محبت کا ڈھب ہی نرالا ہے۔ اس کے طور ہی عجب ہیں۔ یہ جذبہ جس دل میں بیدار ہو جاتا ہے یک گونہ سکون غارت ہو جاتا ہے۔ انسان درد و کرب کے ایسے عالم سے گزرتا ہے کہ یکسر حواس ہی کھو بیٹھتا ہے۔۔۔
اور پھر وہ کربناک گھڑی بھی مجھ پر آن پہنچی، جب رابعہ کو مجھ سے دور جانا تھا۔۔۔۔ جانے سے قبل اس کی اور میری ملاقات ہوئی۔ میں دل و جان سے چاہتا تھا کہ جیسے وقت تھم جائے یا گھڑی کی سوئیاں اسی لمحے پر ٹھہر جائیں اور دن پچاس ہزار برسوں پر پھیل جائے اور ہم ہمیشہ یوں ہی ایک دوجے سے باتیں کرتے رہیں، ایک دورجے کو دیکھتے رہیں اور ایک دوسرے کو محسوس کرتے رہیں۔۔۔
اس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ صدا اسی کی ہو کر رہے گی۔ اس سلسلے میں وہ اپنے اہلِ خانہ سے دو بدو بات کرے گی نیز ان کی رضا مندی بھی حاصل کرلے گی۔ اس کی اطلاع وہ مجھے بذریعہ خط دے دیگی۔ جاتے ہوئے اس نے مجھے رابطے لے لئے اپنا لینڈ لائن نمبر دیا کہ اس دوران کوئی عذر معنی ہوا تو اس پر رابطہ کرلے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ شام کا پہر ڈھل رہا تھا۔ خزاں کے ایام تھے اس لئے سورج جلد ہی غروب ہونے پر تھا۔ اس پر کچھ سرخی آئی ہوئی تھی۔ ہر طرف بکھرے ہوئے پتوں کا منظر تھا۔ میرے دل میں ایک عجب سا تلاطم برپا تھا۔ ایک گہری خاموشی تھی۔ ادھر رابعہ جا رہی تھی، ادھر میری جان۔۔۔
رابعہ کے چلے جانے کے بعد معاًمجھے یکلخت اس کی عدمِ موجودگی کا شدید ترین احساس ہوا۔ گویا میں اپنے آپ میں ہی نہیں تھا۔ میں اس درجہ اس کی ذات کے سحر سے جُڑ چکا تھا، اس کا احساس مجھے اب ہو رہا تھا۔ اس کے تئیں احساس کی شدت سے میں خود کو نکال نہیں پا رہا تھا۔ میری حالت غیر تھی۔ میرا حال قابلِ رحم تھا۔ نہ یونیورسٹی جانا، نہ سمسٹر امتحانات کی تیاری کرنا، نہ کوئی ریسرچ نہ کچھ۔۔۔ رات کے نہ جانے کس پہر نیند آتی اور صبح دیر گئے اٹھتا اور پھر اسی کے خیالوں میں کھویا رہتا۔
میرے آخری سمسٹر کے امتحانات چل رہے تھے۔ میں بجائے اس کے کہ پڑھائی پر توجہ مرکوز کروں، پہروں رابعہ کے دل کش خیالوں میں محو رہتا۔ نہ دن کو قرار نہ رات کسی پہر آرام۔ ایسا لگتا تھا کہ رابعہ کی جدائی مجھے جیتے جی مار ڈالے گی۔ رات کسی طرح آنکھ لگ جاتی تو کوئی نہ کوئی خواب خوفناک صورت اختیار کرکے میری بے چین آنکھوں سے نیند اُچک لے جاتا۔ میں اپنی منزل بھول گیا تھا۔ میں اپنے پتھ سے بھٹک گیا تھا۔ میرے دل و دماغ میں بس ایک ہی نام تھا، رابعہ۔۔۔۔ میرے دل و دماغ میں بس ایک ہی خیال تھا، رابعہ کا خیال۔۔۔۔
آخری سمسٹر کے نتائج زیادہ حیران کن نہیں تھے۔ ظاہر ہے کہ ذہنی طور پر میں اس سمسٹر کے لئے تیار نہیں تھا۔ میں نے پڑھائی بھی نہیں کی تھی۔ سچ پوچھو تو میں اس سب کے لئے تیار ہی نہیں تھا۔ خیر سے میرے حق میں یہ امر بہتر ہوا کہ نتائج دامے دِرمے میرے حق میں تھے۔ گو میں پاس تو ہو گیا تھا تاہم میری مارکس فیصد میں خاصی کمی واقع ہو گئی تھی۔ میں 'گولڈ میڈل حاصل کرنے سے رہ گیا تھا۔ میرے دوست احباب، میرے اساتذہ اور میرے اہل خانہ سب نتائج پر حیران تھے۔
آج کے برعکس ان دنوں گفت و شنید کا واحد ذریعہ خط و کتابت تھا۔ لینڈ لائن سہولیات ہر کسی کو میسر نہیں تھیں۔ گو رابعہ کا لینڈ لائن نمبر پاس محفوظ تھا تاہم میرے حق میں یہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔ صرف خط و کتابت کا ذریعہ تھا، جس کا میں اہل تھا۔ میں رابعہ کے خط کا شد و مد کے ساتھ انتظار کر رہا تھا۔ آنکھیں دروازے پر بچھی رہتی تھیں کہ کب ڈاکئے کے ہاتھوں محبوب نامہ میری چوکھٹ پرآئے، لیکن اس کی جانب سے کوئی خط نہیں آیا۔۔۔
رزلٹ سے کچھ روز قبل میں نے رابعہ کی ایک سہیلی کے لینڈ لائن پر کال کیا۔ سوئے اتفاق کہ شام کو اس سے بات بھی ہوگئی۔
رابعہ نے کہا:
"رضوان مجھے بھول جائو۔ ہمارے درمیان کوئی مناسبت نہیں ہے۔ میں آپ سے تین سال بڑی ہوں اور پھر ہمارے خاندان میں بھی ذات کا فرق ہے۔ رضوان یہ بچپنا چھوڑ دو اور ہاں مجھے فون بھی مت کیا کرو۔۔۔‘‘
ادھر رابعہ یہ باتیں کر رہی تھی، ادھر میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا۔ میں ہاسٹل کی لینڈ لائن سے کال کر رہا تھا۔ وہاں موجود سیکیورٹی گارڈ مجھے دیکھ رہا تھا لیکن میرے آنسو بدستور رواں تھے۔ قبل اس کے میں اپنے حق میں کچھ کہتا رابعہ نے پوری بے پرواہی کے ساتھ فون کٹ کر دیا۔۔۔
میری حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی۔ میری جسمانی حالت ایسی تھی گویا کاٹو تو خون نہیں۔ رابعہ میرے لئے سب کچھ تھی۔ مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز تھی، لیکن۔۔۔۔؟
کچھ روز کے بعد میں اپنے گھر سری نگر آگیا۔ اس کے دو ایک روز بعد میں نے رابعہ کی سہیلی کو فون کیا اور اس کے ذریعے رابعہ کو پیغام بھیجا کہ وہ مجھ سے ملے۔ میرے حق میں خیر کا معاملہ یہ ہوا کہ اس کے اگلے ہی ہفتے ہماری ملاقات ہوگئی۔ میری حالت ابتر تھی۔ گھر والے بھی میری حالت غیر دیکھ کر شک و شبہ میں پڑگئے لیکن میں نے مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ ان کے تمام شکوک رفع کر دیئے۔
اس روز رابعہ مجھ پر برس پڑی۔ میں نے کچھ نہیں کہابلکہ مجھ سے کچھ کہا ہی نہیں گیا۔ البتہ میں نے خوب منت سماجت کی اور کہا رابعہ تمہیں اندازہ ہے میری حالت کا؟ کیا تمہیں احساس ہے کہ میری محبت ہی در حقیقت میری زندگی ہے۔ تمہارے بغیر میرا زندہ رہنا۔۔۔۔۔۔؟
حسبِ سابق رابعہ نے میری بات کاٹتے ہوئے مجھ سے کہا:
"رضوان میری بات چھوڑو۔ مجھے بُھلا دو۔ تمہیں مجھے بھلانا ہی ہوگا۔"
میں حیران و پریشان منت و سماجت کرتا رہا لیکن وہ ہنوز میرے وجود کو درکنار کرتی رہی۔ بلا آخر مجھے میرے حال پر چھوڑ کر اُلٹے پیروں لوٹ گئی۔
مجھے میرے چہار جانب اندھیرا ہی اندھیرا نظر آرہا ہے۔ اس اندھیرے میں آج اس قدر سیاہی تھی کہ میں از خود اپنے آپ کو نہیں دیکھ پا رہا تھا۔ پھر کیا تھا۔ میری زندگی ہی بدل گئی۔ پڑھائی لکھائی کی طرف سے میرا دل ہی اچاٹ ہو گیا۔ میں سگریٹ کے دھویں میں عافیت محسوس کرنے لگا۔ ادھر اُدھر بھٹکنے لگا،بہکنے لگا۔ نہ گھر کا پتہ نہ ماں باپ اور بھائی بہن کی کوئی فکر نہیں۔۔۔۔
میں نے جس یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے لئے فارم جمع کیا تھا وہاں انٹرویو دینے نہیں گیا۔ دو سال تک مستقل میں رابعہ کو مختلف انداز سے پیغامات بھیجتا رہا اور اس کو اپنی محبت کا یقین دلاتا رہا لیکن اس نے پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری زندگی، میرا مستقبل سب کچھ دائو پر ہے۔
ان حالات میں میری طبیعت آپ ہی اردو شعر و شاعری کی طرف مائل ہو گئی۔ گویا میرے اندرون کو کسی قدر طبی و روحانی امداد فراہم کرنے کی غرض سے میری طبیعت نے شعر و شاعری کا سہارا لے لیا ہو۔ ان دنوں میں نے کم و بیش تمام معروف شعراء کے دیوان پڑھ ڈالے۔ گویا شاعروں کے دیوانوں نے مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا ہو۔۔۔۔
انہی دنوں مجھے یہ دل سوز اطلاع ملی کہ رابعہ کی شادی ہو گئی ہے۔ اس روز مجھے میری زندگی کسی عذاب جیسی لگ رہی تھی۔ اسی کشمکش میں میرے ذہن میں یہ خیال پوری شدت کے ساتھ کوندا کہ کیوں نہ خود کشی کرکے خود کو ختم کرلوں لیکن جوں ہی بوڑھے ماں باپ کا خیال آیا توں ہی ارادوں کے قدم تھم گئے۔ جب بھی اس طرح کے خیالات ذہن میں آتے، بوڑھے ماں باپ کا خیال مجھے شدت سے روک دیتا۔
زندگی بکھری پڑی تھی۔ ارمان، خواب، ارادے، حوصلے سب ایک ساتھ دم توڑ رہے تھے۔ کم و بیش چھ مہینے میری یہی حالت رہی۔ دوست احباب، ماں باپ، بھائی بہن سب اپنے اپنے طور پر مجھے سمجھاتے بجھاتے۔ میرے حال احوال مجھ پر بیان کرنے کی کوشش کرتے لیکن میری سمجھ میں جیسے کوئی بات نہ آتی۔ کوئی تدبیر کارگر نہ ہوتی۔ پھرایک روز میری والدہ میرے کمرے میں آئیں اور مادرانہ شفقت کے ساتھ مجھ سے گویا ہوئی:
"بیٹا، رضوان اب بھی وقت ہے۔ ماسٹرس کے بعد یہ تیسرا سال ہے۔ تم کب تک اپنی کھوئی ہوئی محبت کا ماتم کرتے پھرو گے۔۔۔ میں تمہاری ماں ہوں۔ بچپن سے لے کر آج تک میں نے تمہاری مانی ہے۔ اپنی تمام تر خواہشات کا گلہ گھونٹ کر تمہیں پالا پوسا ہے۔ تمہاری عمدہ تعلیم و تربیت کے لئے کوئی کسر نہیں اٹھائے رکھی ہے۔ دیکھ بیٹا اب میں بوڑھی ہوچکی ہوں۔ تمہارے والد بھی انتہائی کمزور ہو چکے ہیں۔ دن بدن ان کی صحت بگڑتی ہی جا رہی ہے۔ بیٹا رضوان تمہیں اندازہ ہے کہ تیری وجہ سے ہم سب کس قدر پریشان ہیں۔ میں اور تیرے ابا یہی سب باتیں سوچ سوچ کر پریشان ہیں۔ ہماری راتیں آنکھوں آنکھوں میں کٹ جا رہی ہیں۔ رضوان، میرا جگر تیرا مستقبل انتہائی روشن ہے۔ تیری کامیابی و کامرانی کے ستارے نہایت بلند اور تابناک ہیں۔ بس ایک عدد شرط یہی ہے کہ تو سب کچھ بھول کر اپنی پڑھائی کی طرف پھر سے متوجہ ہوجاو۔ یہ جو تم نے گوشہ نشینی اختیار کرلی ہے یہ تمہارے لئے تمہاری محبت سے بڑھ کر ہے۔ بیٹا وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ ایسا نہ ہو کہ تم سمجھ تو جاو، لیکن تب تک دیر ہو چکی ہو۔۔۔"
ماں کی ان باتوں نے میرے ضمیر کو یکسر جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مجھے اپنے آپ پر شرم سی آنے لگی۔ والدہ کی دل آویز باتوں نے جیسے میرے اندر گھٹ گھٹ کر مر رہے رضوان کو بیدار کردیا ہو۔ اس وقت وہ رضوان مجھے جھنجھوڑ کر کہہ رہا ہو رضوان اب بھی وقت ہے اس رابعہ کو بھول جانے کے لئے جس نے تیری پاک اور پُرخلوص محبت کو سرِعام نیلام کیا ہے۔ تیرے سچے جذبات کو زک پہنچائی ہے۔ تیری انا کو رسوا کیا ہے اور تیرے اپنوں کا دل دکھایا ہے۔ انہیں ابتلا و آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
پھر کیا تھا، انہی سب باتوں کو سوچ کر ازسرنو میں اپنی پڑھائی لکھائی کی جانب متوجہ ہو گیا۔ کچھ ہی مہینوں بعد میں نے مختلف یونیورسٹیوں میں بغرض داخلہ انٹرنس دیا۔ ان چار مہینوں میں، میں نے سخت محنت کی جس کے نتیجے میں میرا ایڈمیشن ہارورڈ کے شعبہ ملکی طبیعات(Astrophysics) میں ہو گیا۔
میرے دوست اظہر آج نوبل انعام ملنا میرے ان سب خوابوں کی تعبیر ہے۔ ہاں یہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ آج بھی میں رابعہ کو مِس (Miss)کرتا ہوں۔ مجھے اپنی کھوئی ہوئی محبت کا دکھ آج بھی ہے۔ میں اپنی گم شدہ محبت کے زخموں کا کرب اب بھی محسوس کرتا ہوں۔
مگر میرے دوست آج نوبل انعام ملنے کے بعد مجھے اس بات کا پختہ یقین ہو چلا ہے کہ کوئی نہ کوئی ہمدرد میرے ان دکھوں کا مداوا کرے گا۔ جس خدا نے مجھے خاک سے اٹھا کر شہرت اور عزت کی بلندیوں پر پہنچایا ہے، وہی میرے لئے سکون و عافیت کی راہ ہموار کرے گا۔
���
بٹہ پورہ، نسیم باغ، سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛7889378038،[email protected]