ورکس منسٹر مسٹر شمیم احمد پر جلسے میں حملے کی خبر چاروں طرف پھیل گئی۔دیر رات مسٹر شمیم صاحب اپنی بیوی کے ساتھ ٹیلی ویژن پر آج کے جلسے کا ٹیلی کاسٹ دیکھ رہے تھے۔خبر آئی کہ آج ورکس منسٹر عزت مآب شمیم صاحب کو جلسے میں ایک نا معلوم شخص نے دن دھاڑے قتل کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے مستعدی سے حملہ آور کو بر وقت دبوچ لیا۔جامہ تلاشی لینے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بھیس بدل کر آیا تھا۔اُس کی جیب سے ایک تیز دھار والا چاقو برآمد ہوا۔ہاتھوں میں ایک عجیب قسم کی خوشبو والا پھولوں کا ہار تھا۔۔پولیس کو مذید تحقیقات کے بعد پتہ چلاکہ حملہ آور مغل پورہ تحصیل چاند گڈھ کا رہنے والا ہے۔نام عبداللہ آہنگر ولد سبحان آہنگر ہے۔گھر میں بالکل اکیلا ہے۔پولیس اُسکے دیگر ساتھیوں کی تلاش میںہے۔
خبر سُنکر شمیم صاحب اور اُسکی بیوی شبنم احسان سکتے میںآگئے۔دونوں کے ہوش اُڑ گئے۔شبنم صاحب کی حالت غیر ہوگئی۔وہ ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔لیکن وفادار بیوی نے اسکو جلدی سنبھا ل لیا۔ڈھارس بندھائی۔ ہوش وحواس قائم رکھنے کی تلقین کی اور دانشمندانہ قدم اُٹھانے کا مشورہ دیا۔۔کافی غوروخوض کے بعدمنسٹر صاحب نے پولیس کو ہدایت دی کہ ملزم عبداللہ آہنگر کو اسی وقت اُ س کے سامنے پیش کریںتاکہ اسکے ساتھ زیرِالتوأکچھ معاملات نپٹائے جائیںجنکی بنیاد پر وہ حملہ آور ہوا۔۔پولیس نے کسی تاخیر کے بغیر کاروائی کی۔
عبداللہ کے کمرے میں داخل ہوتے ہی منسٹرصاحب اُسکے قدموں پر گِر پڑا۔زارو قطار ونے لگا۔مجھے بخش دو۔مجھے معاف کرو۔میں نے آپکو کتنی تکلیف دی۔۔اور اُسکے پاؤں چومنے لگا۔اُسکے ساتھ اُسکی بیوی شبنم احسان بھی اشک بار تھی اور بخشش کی طلبگار تھی۔لیکن اس دوران عبداللہ آہنگر مطمئن نظر آرہا تھا۔نہ اُسکے ماتھے پر کوئی شکن ابھری اور نہ ہونٹوں پر کوئی شکوہ تھا۔اُس نے شمیم کو دونوں بازوں سے پکڑ کر اُٹھایا اور سینے سے لگایا۔شبنم احسان کے سر پر ہاتھ رکھکر کہا ,,مجھے آپ لوگوں سے کوئی شکایت نہیں ۔آپ سدا خوش و خرم رہیں اور ترقی کے منازل طے کرتے رہیں۔یہی میری دُعاء ہے۔۔۔
ندامت اور شرمندگی سے شمیم نے پوچھا,,بابا پھر آپنے مجھے ڈھونڈنے کی کوشش کیوں نہیں کیــ۔۔حالانکہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کئی بار گھر آیالیکن گھر کو ہمیشہ مقفل پایا۔مانا کہ میں نااہل روگردان اور احسان فرا موش ہوںلیکن آپ تو ایک باپ ہیںآپ نے مجھے کیوں کر بھُلادیا۔۔عبداللہ آہنگر جذباتی ہوگیا اورکہا، ’’تمہاری ماں کے مرنے کے بعد میں نے اپنی تمام توجہ تم اور تمہاری تعلیم پر لگانے کا عزم کیا۔دوسری شادی بھی نہیں کی۔ مجھے تم میں ایک بڑا آدمی دکھائی دیتا تھااِسلئے میں تم کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دینے کا متمنی تھا۔۔۔لیکن اس وقت میری امیدوں پر پانی پھر گیا جب تم ایم اے کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد اُس لڑکی، جو اب تمہاری بیوی ہے، کے ساتھ بھاگ نکلا۔میں بکھر گیا لیکن میرے دوستوں اور ہمسایوں نے مجھے سنبھال لیا۔۔۔میں نے چُپ سادھ لی اور پولیس میں بھی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی۔۔البتہ یونیور سٹی سے لڑکی کا نام و پتہ معلوم کرکے بھیس بدل کر کافی مسافت طے کرنے کے بعد اس شہر میں آیا۔کافی تلاش کے بعد معلوم ہواکہ شبنم احسان اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی ہے۔ اسکا باپ احسان دانِش ایک منجھا ہوا سیاستدان اور دولت مند آدمی ہے۔منسٹر بھی رہ چکا ہے۔میاں بیوی بُوڑھے ہوچکے ہیں اور بُڑھاپے کا سہارا چاہتے ہیں۔۔باپ کی شفقت کو دباکر میں واپس چلا گیا۔۔لیکن آپکو بُھلایا نہیں۔۔آپ سے بے خبر نہیں رہا۔ میں تمہارے ماہ و سال سے ہی نہیں بلکہ تمہارے شب و روز سے بھی واقف ہوں ۔سائے کی طرح تم لوگوں کے ساتھ رہا۔تمہاری شادی کی تقریب ۔تمہارے ایم ایل اے بننے کے جشن اورمنسٹر بننے کے جشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس کے علاوہ تمہارے ساس سُسر کے جنازے میں بھی شرکت کی۔لیکن آج بارہ سال کے بعد میں ہار گیا۔ہزاروں لوگوں کے جم غفیر میں تم کو تقریر کرتے ہوئے دیکھ کر جذبات قابو سے باہر ہوگئے۔جی چاہا کہ تم کو گلے لگاؤں۔ سیفٹی لائن زبردستی کراس کرکے تمہاری طرف دوڑ پڑا۔لیکن پولیس نے مجھے دبوچ لیا۔باپ بیٹا رات بھر راز و نیاز کی باتیں کرتے رہے۔صبح دیر گئے منسٹر شمیم صاحب نیند سے بیدار ہوا۔باپ کو نہ پاکر پریشان ہوا۔ٹیبل پر ایک رقعہ لکھا ہوا پایا۔
بیٹے شمیم ـ؛۔ایک باپ کی آرزو ہوتی ہے کہ جو میں نہ کر سکاوہ میری اولاد کرکے دکھائے۔مجھے میری تمناؤں اور امیدوں سے زیادہ مل گیا اب مجھے اور کیا چاہئے۔جیو اور خوش رہو۔
آپ کا والد
عبداللہ آہنگر
���
موبائل نمبر؛8899039440