انسپکٹر رحمان کا بس نام ہی رحمان تھا وراس میں رحم نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں ۔باتیں بڑی میٹھی کرتا تھا لیکن اندر سے سانپ تھا سانپ ۔بھلا ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ کوئی کیس اس کے پاس آتا اور وہ اس سے چائے، مٹھائی اور نہ جانے کن کن ناموں سے پیسے نہ وصولتا ۔ سامنے والا کتنا مجبور اور بے بس کیوں نہ ہو۔دو چار جگہوں پر کوٹھیاں بنا رکھیں تھیں ۔اور بیوی کی مانگیں بھی روز بہ روز بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔آج بھی انسپکٹر رحمان ڈیوٹی پر جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ اسے فون آیا۔ دائیں ہاتھ سے ٹائی کا ہُک ٹھیک کرنے لگا اور بائیں ہاتھ سے فون رسیو کیا۔ہیلو ۔۔سامنے والے نے اپنا تعارف دیا، مزید کچھ کہنے ہی والا تھا کہ انسپکٹر برس پڑا۔۔۔نہیں نہیں تب تک یہ نہیں ہو گا جب تک مجھے میرا حصہ نہیں ملے گا مجھے بیوی کے لیے نئے جھمکے لانے ہیں اس مہینے اور جھٹ سے فون رکھ دیا۔ جھمکے سنتے ہی بیوی کچن سے دوڑی دوڑی چلی آئے، صرف کہو گے یا لاؤ گے بھی۔۔
تم میری جان ہو جان۔میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔انسپکٹر رحمان بیوی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا۔"میرا نام انسپکٹر رحمان ہے اس مہینے جھمکے نہ لائے تو میرا نام ہی بدل دینا۔۔۔بیوی ،،،،کس سے بات ہو رہی تھی۔۔
شوہر ۔۔تھا ایک آدمی گڑگڑا رہا تھا کہ میری بیوی بیمار ہے پانچ لاکھ روپیہ نہیں دے سکتالیکن میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے کہانی مت سناؤ ۔مجھے اس مہینے بیوی کے لیے جھمکے لانے ہیں تو لانے ہیں بس۔۔۔۔۔۔۔
اچھا میں چلتا ہوں۔ گاہک میرا انتظار کر رہا ہوگا۔انسپکٹر رحمان نے مسکراتے ہوئے بیوی سے کہا اور گاڑی میں بیٹھا۔تھانے پہنچا تو اکرم نامی شخص دروازے پر انتظار کر رہا تھا ۔انسپکٹر کو دیکھتے ہے سلام صاحب سلام صاحب کہتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے اس کے کمرے میں گیا اور ہاتھ باندھے چپ چاپ کھڑا رہا۔تقریبا دو گھنٹے تک انسپکٹر اپنے کام سے مشغول رہا اور اکرم کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا۔اکرم کھڑے کھڑے انتظار کر کے تھک گیا اور نیچے بیٹھ گیا۔تب جا کر انسپکٹر نے نظر اٹھائی۔۔۔ہاں! بولو کیا کرنا ہے ۔پانچ لاکھ روپے لگیں گے ۔لیکن جناب اس نے میری زمین جبراً ہڑپ لی ہے ۔میرے پاس سارے کاغذات ہیں ،اکرم بہت عاجزی سے کہنے لگا۔انسپکٹر رحمان آگ بگولا ہو گیا ۔۔تو جاؤ لے جاؤ کاغذات کے بل بوتے پر زمین واپس ۔نکل جاؤ یہاں سے مجھے اور بھی کام ہیں۔۔۔نہیں نہیں میں کچھ کر لیتا ہوں۔ ۔۔اکرم، جو پیشے سے ایک چرواہا تھا، آنسوں پونچھتے ہوئے انسپکٹر کے کمرے سے نکل گیا ۔ٹھیک پانچویں روز اکرم انسپکٹر کے کمرے میں داخل ہوا اور پوٹلی سے پانچ لاکھ روپے نکال کر انسپکٹر کو دے دیئے
انسپکٹر پیسے گنتے ہوئے۔۔۔۔اب کہاں سے آئے اتنے پیسے۔۔۔
جی بیوی کے علاج کے لئے پیسے رکھے تھے اور بیٹی کے کچھ زیورات تھے۔ اپنے پُرکھوں کی وراثت کا سوال ہے اسی لئے۔۔۔۔۔ اکرم نے ہاتھ جوڑتے ہوئے جواب دیا۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔اگلے ہفتے تک تمہیں اپنی زمین واپس مل جائے گی۔لیکن یہ بات ۔۔۔۔۔۔۔اکرم انسپکٹر کی بات کاٹتے ہوئے ۔۔۔۔نہیں نہیں جناب کسی سے نہیں کہوں گا اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کمرے سے نکل گیا۔۔
انسپکٹر بہت خوش ہوا اور سب انسپکٹر سے کہا کہ آج مجھے کام ہے میں نکل رہا ہوں ۔۔۔
شام کو انسپکٹر اپنی بیوی کے لیے جھمکے لے کر گیا اور ساتھ میں اپنی چھوٹی بیٹی کے لیے لیپ ٹاپ بھی۔پورے گھر میں خوشی کا ماحول تھا ۔رحمان نے ٹی وی آن کیا اور اطمینان سے بیڈ پر لیٹ گیا۔اور تحکمانہ لہجے میں بیوی سے کہا ۔بیگم چائے لاؤ ۔بہت تھک چکا ہوں ۔بیوی فوراً چائے لے کر آئی اور رحمان کے پاؤں دبانے لگی۔رحمان سمجھ گیا کہ یا تو یہ سب جھمکوں کی خوشی میں کیا جا رہا ہے یا کسی اور فرمائش کی تیاری کی جا رہی ہے۔شام کو دستر خواں بچھ گیا تو طرح طرح کے پکوان لائے گئے ۔آج بیگم خوش تھی تو پورا گھر خوشی سے جھوم رہا تھا ۔اگلی صبح انسپکٹر نیند سے جاگ ہی رہا تھا کہ موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگئ ۔انسپکٹر آنکھیں موندتے ہوئے۔۔۔ہاں کون ہے ۔۔۔
جی سب انسپکٹر رمیش بول رہا ہوں ۔گاؤں والوں نے ایک چور کو پکڑا ہے اور اسے تھانے لے آئے ہیں۔سر پنچ صاحب کے ساتھ پورا گاؤں آیا ہے ۔چور کو لے کر۔۔۔ہاں ہاں انہیں بٹھائے رکھو میں ابھی آرہا ہوں ۔انسپکٹر رحمان بغیر کسی کو کچھ بتائے تھانے پہنچ گیا ۔وہاں سولہ سال کا ایک لڑکا دیکھا جس پر الزام تھا کہ اس نے سیٹھ کے گھر چوری کی ہے۔انسپکٹر کو دیکھتے ہی سب لوگ اس لڑکے کے نام گالیاں بکنے لگے۔۔
رحمان نے سب کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔سر پنج مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ۔نہیں جناب ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے، یہ چور بڑا شاطر ہے ۔سیٹھ کو لوٹا ہے اس نے۔۔۔۔
انسپکٹر رحمان، ہاں بتاؤ کیوں چوری کی۔۔۔
لڑکا اپنے کھر درے ہاتھوں سے آنسوں پونچھتے ہوئے۔۔۔جناب میری ماں بیمار ہے سرجری کے لیے پیسے درکار تھے۔ پچھلے تین مہینوں سے اس سیٹھ کے ہاں دن رات مزدوری کر رہا ہوں لیکن یہ پیسے دینے میں ٹال مٹول کر رہا تھا۔ سرجری کی تاریخ نزدیک ہے اسی لیے میں نے تجوری سے پیسے اٹھائے۔ صاحب میں نے صرف اپنی مزدوری کے پیسے اٹھائے ہیں۔لوگ چلانے لگے بکواس کر رہا ہے یہ۔لوگوں کو لوٹتا ہے اور چہرے پر شرافت کا نقاب اوڑھ کر رکھا ہے ۔انسپکٹر سر جھکائے یہ سب سن رہا تھا ۔نہ جانے اسے اپنے سارے کرتوت کیوں کر یاد آ گئے ۔وہ من ہی من میں اپنی چوریوں کا اور اس بچے کی چوری کا موازنہ کرنے لگا۔نہ جانے اسے ایسا کیوں لگ رہا تھا جیسے یہ لوگ بچے سے نہیں بلکہ انسپکٹر سے مخاطب ہیں۔انسپکٹر کی خاموشی دیکھ کر سر پنج چیخ اٹھا۔۔انسپکٹر آپ خاموش کیوں ہیں۔اس چور کی طرف غور سے دیکھیئے اس میں آپ کو ایک شیطان نظر آئے گا۔۔انسپکٹر نظر اٹھا کر ٹھیک سامنے والی دیوار کی طرف دیکھنے لگا جس پر ایک شیشہ لگا ہوا ہے۔انسپکٹر شیشے میں اپنا چہرا غور سے دیکھنے لگا۔۔۔انسپکٹر صاحب دیوار کی طرف نہیں اس چور کی طرف دیکھئے ۔۔انسپکٹر رحمان بہت نرم لہجے میں ۔۔۔ہاں ہاں چور کو ہی دیکھ رہا ہوں۔سچ مچ اس نے شرافت کا نقاب اوڑھ رکھا ہے ۔لیکن میری ایک صلاح مانئے کہ اس کو آج چھوڑ دیتے ہیں ۔یہ آئندہ چوری نہیں کرے گا مجھے لگتا ہے کہ اسے احساس ہو گیا ہے اور بہت شرمندہ بھی ہے اپنے کئے پر۔اس کے ماتھے سے پسینہ ٹپک رہا ہے ۔بس اسے معاف کر دیجے ۔
انسپکٹر رحمان ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے کمرے سے باہر چلا گیا۔
���
اویل نورآباد، کولگام