پہلا قیدی
جیسے ہی جج نے سزا سنائی۔۔۔ اسے جیل لایا گیا۔۔۔ پولیس والے اسے ایک کمرے میں لے گئے جو عجیب و غریب قسم کی مشینوں سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ کمرے کے درمیان میں ایک کرسی مشینوں سے گھری ہوئی تھی۔۔۔ یہ ٹھیک ویسی ہی کرسی تھی جیسے دانت کے ڈاکٹروں کی ہوا کرتی ہے۔۔۔۔ اسے اس کرسی پر لٹا دیا گیا اور آنکھوں پر ایک مخصوص قسم کا چشمہ چڑھا دیا گیا۔۔۔۔ آنکھوں پر چشمہ چڑھانے سے پہلے اس کی نظر سامنے لگی ایک بڑی سی اسکرین پر پڑی جس میں تاریخ تھی ایک دسمبر دو ہزار تیس اور وقت تھا پانچ بجکر بیس منٹ ۔۔۔۔ اس کے بعد اسے کچھ یاد نہیں اور اس نے خود کو سلاخوں کے پیچھے جیل کے ایک کمرے میں پایا۔۔۔۔۔
" کاش میں نے اس پل ,خود پر قابو رکھ لیا ہوتا۔۔۔۔
کاش میں نے اسے مارا نہ ہوتا۔۔۔
تو اس جہنم نما جیل میں روز روز مرنا نہ پڑتا۔۔۔۔
اور ان درندہ صفت قیدیوں کے ساتھ نہیں رہنا پڑتا۔۔۔
کیا ان کے سینوں میں دل ہے یا نکال لیا گیا ہے۔۔۔"
پھر اس نے خود کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔۔
"یہ آخری دن ہے ، یہ بھی گزر جائے گا۔۔۔"
پچھلے بیس سالوں سے وہ ہر روز اسی درد سے گزرتا رہا تھا۔۔۔۔۔
سزا کی میعاد ختم ہوتے ہی سارے قیدیوں اور گارڈز کے ساتھ جیل اچانک غائب ہوگئیں اور اس نے خود کو اسی کرسی پر پایا۔۔۔
ایک شخص نے اس کی آنکھوں سے چشمہ ہٹایا اور کئی لوگ اس کے جسم پر لگے مختلف سینسرز ہٹا رہے تھے۔۔ اچانک اسکرین پر نظر پڑتے ہی وہ بری طرح ہل گیا۔۔۔۔ اسکرین پر تاریخ تھی ایک دسمبر دو ہزار تیس اور وقت تھا پانچ بجکر چالیس منٹ۔۔۔۔ اس نے خود سے سوال پوچھا ۔۔۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔ جس عذاب کو اس نے پورے بیس سال جھیلا ہے ۔۔۔ اس گھڑی کے مطابق وہ صرف بیس منٹ ہے۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے؟؟؟؟
اس نے یہ سوال وہاں موجود پولیس والوں سے بھی پوچھا لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔ وہ پولیس والوں کو دیکھ کر اور پریشان ہو گیا۔۔۔ وہ سب وہی تھے جو اسے لے کر آئے تھے اور ان کے اوپر وقت کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔۔۔
وہ خوف و ہراس کے عالم میں جیسے ہی جیل کے باہر آیا رپورٹرز کا ایک ہجوم اس کے اردگرد جمع ہوگیا۔۔۔۔۔ اور سب نے یک زبان ہوکر ایک سوال پوچھا۔۔۔۔
" آپ ورچوئل جیل کے پہلے قیدی ہیں۔۔۔۔ اپنے تجربات ہمارے سامعین کو بتائیں۔۔۔"
جیل کا نام سنتے ہی اس کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی اور وہ بنا کوئی جواب دیئے وہاں سے آگے بڑھ گیا۔۔۔
اسپلٹ
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اسے اسپلٹ پرسنالٹی ڈس آرڈر (Split personality disorder)کا مرض لاحق ہے۔۔۔۔
جس کی وجہ سے اسے بیوی بچے بھی چھوڑ کے جا چکے تھے۔۔۔
لمبے علاج کے بعد وہ ٹھیک ہوکر پچھلے ہفتے ہی گھر آیا تھا۔۔۔۔
آج وہ بہتر محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔ اپنے ہی گھر میں وہ اجنبیوں کی طرح گھومتے ہوئے بیسمنٹ میں پہنچ گیا۔۔۔
وہاں کا نظارا دیکھ کر اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔۔۔
ٹیبل پر چار کٹے سر رکھے ہوئے تھے۔۔۔
تین سر اس کی بیوی اور بچوں کے تھے اور چوتھا اس ڈاکٹر کا ۔۔۔
جس نے اس کا علاج کیا تھا۔۔۔
���
کامٹی ناگپور (مہاراشٹر)
موبائل:- 9049548326