Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

شاخِ نازک کا آشیانہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: December 12, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
21 Min Read
SHARE
ڈاکٹر ہونے کے ناطے بطشاء کو ماں (حریمؔ) کے دل کی دیرینہ بیماری کا  اندازہ  تھا اسلئے اسکو باتوں میں مصروف رکھنا چاہتی تھی۔  آج  اس نے ماں کو کہا کہ تم اپنی  زندگی کے بارے میں بتاو، میں  تمہاری سوانح حیات لکھوں گی۔حرؔیم کے ہونٹوں کو ہلکا سا تبسم چھو گیااور کہا ‘میری کہانی لکھ کر کیا کرو گی ، فضول میں اپنا دل  دکھی کرو گی‘۔ لیکن بطشا نے ایک نہ سنی۔ حالات سے ہاری ہوئی حریمؔ  نے ٹھنڈی آہ بھر کرکہا ٹھیک ہے کوشش کروں گی اور کہنے لگی، مجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ زندگی کا اتنا طویل سفر طے کیسے کیا، اگر بتانے بیٹھوں تو شاید کئی راتیں آنکھوں میں گزارنے کے بعد بھی میری کہانی ختم نہیں ہوگی۔خیر تم ضد کر کے بیٹھی ہو تو بتاتی ہوں‘،حرؔیم بھولے انداز میں اپنی بیٹی  بطشا ءسے مخاطب ہو کربولنے لگی۔ 
حریم نے لمبی سانس لے کر کہا ہم بہنیں تمہاری قدسی خالہ ، سی سی خالہ اور میں، تینوں بہت ہی ذہین تھیں۔ میں سب سے بڑی تھی اور وہ دونوں مجھ سے دور بھاگتی تھیں کیونکہ میں بچپن سے ہی سنجیدہ طبیعت کی حامل تھی۔میں ان کی طرح شوخ اور چنچل نہیں تھی ۔ 
مجھے اپنے  والد محترم کی دھندلی صورت یاد ہے، اتنا کہہ سکتی ہوں وہ فوجی تھے، مزید کچھ یاد نہیں ہے۔اس لئے خود اندازہ لگا سکتی ہو کہ  وہ کس شخصیت کے مالک تھے۔انکی موت جنگ میں نہیں ہوئی تھی۔ اماں کہتی تھی کہ وہ اپنی سروس رائفل صاف کر رہے تھے اوررائفل کو لاک کرنا  بھول گئےتھے۔وہ اپنی ہی گولی سے جان بحق ہو گئے۔ ماں نے ہم تینوں بہنوں کا مشنری سکول میں داخلہ کرادیا۔ بڑی ہمت والی تھی و ہ ، مجھے یاد ہے ،میں سکول سائیکل پر جاتی تھی۔ ماں ہمیں ہر لحاظ سے خود مختار دیکھنا چاہتی تھی۔ ایک اکیلی عورت کیلئےہم تینوں کو صحیح تربیت دینا کتنا مشکل رہا ہوگا یہ وہی جانتی تھی۔
پھر میں نے کالج میں داخلہ لیا۔ یہ کہتے ہوئے حریم کی آنکھوں میں نورانی  چمک سی آ گئ۔ اُسے یوں لگا جیسے وہ اپنے ماضی کی خوبصورت دہلیز پر پہنچ گئی ہو۔اسکے ہونٹوں پر گلاب کھلنے لگے  اور کہنے لگی کہ ان دنوں کالج میں این سی سی اور این ایس ایس وغیرہ جیسی  غیر نصابی سرگرمیاں  ہوا کرتی تھی۔ میں باقاعدگی کے ساتھ این ۔سی۔سی، میں حصہ لیتی تھی۔ میری ہائٹ وغیرہ چونکہ اچھی تھی اس لیے میں گروپ کی سربراہ تھی۔ اس سلسلے میں، مجھے ملک بھر کی مختلف ریاستوں کو دیکھنے کا موقع مل گیا ۔ جب میں  بی۔ایس۔سی ،فائنل ائر میں آگئی، تو ہر سال کی طرح اُس سال بھی کالج میں این ۔سی ۔سی کے سالانہ تقریب ہونے والی تھی ۔ہم سٹوڈنٹس کو پورے پورے دن مشق کرائی جاتی تھی ۔ بالآخر تقریب کا دن آگیا جس کا پرنسپل صاحبہ اور پورے کالج کو نہایت بے صبری سےانتظار تھا۔ اس موقعے پر   اعلی فوجی افسران کو بلایا گیا تھا اور وہی مہمان خصوصی بھی تھے۔تمدنی پروگرام کے ساتھ کالج کی طرف سے  شاندار پریڈکا اہتمام کیا گیا تھا، جس کیلئے ہم نے پوری تیاری کی تھی اوراسی کا جائزہ لینے کیلئےوہ آئے تھے۔  اس پریڈ کی قیادت میں کر رہی تھی۔ہم جب سلامی منچ کے قریب پہنچے تو منچ پر کھڑے فوجی افسروں کی پریڈ سے نظریں نہیں ہٹتی تھیں کیونکہ ہم نے اتنا اچھا پریڈ کیا تھا۔
انعامات تقسیم کئے جانے کے بعد طا لبات بےحد خوش تھیں، ہماری مسرتوں اور شادمانیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ساری تھکن مٹ گئی تھی۔انعامات  تقسیم کئے جانے کے بعد ہماری حوصلہ افزئی کی گئی۔پرنسپل صاحبہ نے ہمارا تعارف ان فوجی افسران سے کرایا۔ کمانڈر صاحب مجھے تفصیل سے پریڈ اور اس کی تربیت وغیرہ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ میں نے  ان کو دوران تربیت طالبات کو اسے آگاہ کیا اور خاص کر مختلف مرحلوں پر جومسائل ہم کودر پیش  تھے،اُس سے روشناس کرایا۔ میری  دلیل سن کر وہ متاثرہوئے۔
 اختتام ہفتہ تھا تو کالج بھی بند تھا۔ ہمیں  آرام کرنے کا اچھا وقت مل گیا۔ سوموار کو کالج پہنچ گئے تو پرنسپل صاحبہ نےمجھے اپنے چیمبر میں بلایا ۔میں گھبرا گئی لیکن جرات کر کے ان کے آفس چلی گئی۔ میں نے دروازے پر پہنچ کراجازت طلب کی تو پرنسپل صاحبہ نےمسکراکر اندر آنے کے لئے کہا۔ میرے بارے میں ساری جانکاری لینے کے بعد اس نے  گھر کا ٹیلیفون نمبر مانگا، میں نے دے دیا اورپھر مجھے واپس کلاس میں جانے کی ہدایت دی۔
 میں شش و پنج میں پڑ گئی تھی کہ پرنسپل صاحبہ کو ماں سے کیا کہنا  ہوگا  ۔ خیر یہ وسوسہ لے کر میں گھر پہنچ گئی۔ قدسی اور سی سی دونوں بہنیں ، ماں کے ساتھ چپک کے بیٹھی تھیں اور مجھے دیکھ مسکرا کر ایک دوسرے کو اشارے کر رہی تھیں۔ میں بڑی معصوم صورت بنا کے ماں کے پہلو میں بیٹھ گئی اور ڈرے ہوئے لہجے میں پرنسپل صاحبہ کی  آفس میں بلانے والی بات بتا دی۔ تینوں مل کر کھلکھلاکر ہنسنےلگےاور میں بت بن کر ان کو دیکھ رہی تھی۔ ماں جلدی سے مجھے گلے لگا کر بولی، ’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پرنسپل صاحبہ نے تمہارے آنے سے قبل فون کیا تھا‘۔ ماں نے جب بتا دیا کہ پچھلے ہفتے کے فنکشن کے وقت ایک فوجی آفیسرنے  تم کو پسند کر لیا ہے اور تم سے شادی کرنے کا خواہاں ہے تومیرے تو ہوش اُڑ گئے۔ ماں نے مزید کہا کہ ' میں نے ابھی کوئی معقول جواب نہیں دیا کیونکہ میں تم تینوں بہنوں کی دوسرے شہروں میں شادی نہیں کر سکتی۔ مجھے یاد آگیا جو فوجی میرے ساتھ گفتگو کر رہا تھا شاید وہی ہوگا ۔ میری تو نیند  ہی اڑ گئی ،کروٹیں بدل بدل کے رات گزر گئی۔ دوسرے دن میں نے کالج جاکر اپنی سہیلی ریٹا ؔ کو سارا واقعہ سنا دیا۔ اس نے اپنے الگ انداز میں چھیڑ کر بتایا ’’ہم سب نے پریڈ کے وقت ہی خوشبو سونگھ لی تھی، جوڑی اچھی  رہےگی‘‘۔ 
اس کے  بعد حریم نے لمبی سرد آہ بھرکر کہا کہ’مقدر کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں۔ انسان کو کیسے اور کہاں کہاں سے نچاتا ہے پتہ نہیں چلتا‘۔
 ہمارا امتحان ختم ہونے کے  بعد پرنسپل صاحبہ نے ماں کے ساتھ ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ماں پرنسپل صاحبہ سے ملنے گئی تو وہاں وہ فوجی نوجوان بھی آیا ہوا تھا جس کا نام ساحل ملک    تھا۔طویل ملاقات اور کافی چھان بین کرنے کے بعد آخر کار ماں کو رشتہ بہت اچھا لگا  اور ساحل کی شخصیت سے بھی متاثر  ہو گئی تھی۔ سچ پوچھو تو میں بھی اس کو پسند کر نے لگی تھی ۔ وہ بہت ہی خوش مزاج ،باوقار اور پر کشش شخصیت کا مالک تھا ۔لیکن  ماں کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کرنے کی ہمت جٹانا  میرے بس کی بات نہیں تھی۔ اللہ کا شکر ہے اس کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔
وہ پنجاب کے ایک عزت دار گھرانے سے تھا اس کے ابا بڑے زمیندار ہونے کے علاوہ گاؤں کے سر پنچ تھے۔خیر ہماری شادی ی دھوم دھام سے ہو گئی۔ میں دلہن بن کر پنجاب گئی۔ کچھ دنوں کے بعد ساحل کو ڈیوٹی پر حاضر ہونا تھا ۔ فوجی شہروں یا گاؤں کے نہیں بلکہ سرحدوں کے مکین ہوتے ہیں اس لئے ہم روانہ ہو گئے۔ دونوں بہت خوش تھے نہایت خوبصورت وقت گزرانے کا موقع مل گیا ۔ساحل نے میرے لئے سہولت کا ہر سامان میسر رکھا۔ ہفتے میں ایک بار پارٹی ہوا کرتی تھی ، زندگی خوب  سے خوب تر ہوگئی، دیکھتے ہی دیکھئے ایک ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا۔ حریم  نے لمبی سانس لے کر کہا کہ’ابھی تک مجھے لگ رہا ہے کہ وہ دور کوئی سہانا خواب تھا ۔ اس پر رب کی ایک اور مہربانی ہوئی کہ میں ماں بننے والی تھی۔ ساحل کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔  وہ زندہ دل شخص تھا۔اس کی ایک عادت مجھے بہت پسند تھی کہ وہ زندگی کا ہر لمحہ خوشی سے جینے کا عادی تھا۔ نہ میں نے اس کے ماتھے پر شکن دیکھی اور نہ کبھی اسے ناراض پایا۔زندگی ہر دن عید لگ رہی تھی۔ 
چند ماہ بعد تمہاری پیدائش سرحد کے قریب ایک فوجی ہسپتال میں ہوئی ان دنوں  ساحل میرے پاس ہی رہے۔ پھر گھر پر ہم دونوں کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس کو رکھا کر دیا۔ کھانا پکانے کے لیے بھی ایک بندہ مقرر کیا۔ دعوت کا اہتمام کیا اور سب فوجی فیملیز نے شرکت کی۔ اسی دعوت کے موقعے پر تمہارا نام بطشاء،   رکھا گیا، دیکھتے ہی تم تین مہینوں کی ہو گئی‘۔ اسکے بعد حریم نے ٹھنڈی آہ بھر لی۔
 'مجھے ابھی  تک وہ رات یاد ہے،  یہ کہتے ہوئے حرؔیم کی آواز بھاری ہو گئی جیسے کسی نے اس کا گلہ دبا دیا ہو۔ بطشاء ڈر گئی۔ اس نے ماں کو کہا’’ بس کرو ، امی باقی کی کہانی کل سُنانا، اب تم آرام کرو‘‘ ۔ لیکن حریم نے  ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا ، ’یا رب مجھے اتنی مہلت ضرور دینا کہ میں اپنی کہانی  اپنی زبانی بیان کر سکوں‘۔
 تھوڑی دیر ٹھہرنے  کے بعد اس نے کہا، ’اس رات فون کی گھنٹی بج گئی۔ ساحل کو اندازہ تھا کہ  کوئی ایمرجنسی آن پڑی ہے۔ اس نے جلدی سے ریسیور اٹھایا      ، اُسکو سرحد کی ایک طرف اپنی گروپ ریجمنٹ کی کمان سنبھالنے کا حکم ملا۔وہ جلدی سے تیار ہو کے نکلے۔  جنگ کے امکان  کا  ساؔحل کو  اندازہ تھا لیکن یوں اچانک نہیں  سوچا تھا۔ تھوڑا ٹھہر کے حریم نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’جنگ تباہی کا دوسرا نام ہے۔ زور دار دھماکوں  اور گولیوں کی گن گرج سے ماحول ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ کئی دن گزر گئے لیکن کسی بھی فوجی یا آفیسر کی کوئی  خبر نہیں ملی۔ جنگ کا ماحول تھم جانے کے بعد زخمی فوجیوں کو لاکر ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ روز کبھی لاشیں اور کبھی زخمی فوجی آتے رہے ۔ آخر یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ لیکن ساحل  کا کوئی پتہ نہیں لگ سکا۔ میں  بے قابو ہو اٹھی ۔  میں روز سرحد  کے نزیک جاکر ساحل کے بارے میں دریافت کرکے تھک گئی  لیکن کوئی اتہ پتہ نہیں ملا۔ ایک شام کو میں نے تم کو  اپنی   ایک دوست مسزؔکپور کے پاس رکھ دیا اور خود ساحل کو سرحد پر ڈھونڈنے نکلی۔ اپنے ساتھ  ایک ایمرجنسی لائٹ اٹھائی اور چل دی۔ میرے پیچھے دو سپاہی آئے جنہوں نے مجھے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن میں نہیں رکی ۔میں نے جنگل، کوہ و بیاباں کا چپہ چپہ چھان مارا ،  لیکن بے سود ۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر بندہ  دھماکے کا شکار ہو جائے  یا کسی اور وجہ سے مارا جائے،پھر بھی جائے واردات پر کوئی سراغ مل جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ میں نے جنگل کی لمبی  جھاڑیوں کو آگ لگا کر جلا دیا۔ وہاں لاپتہ ہوئے فوجیوں میں سے دوزخمی فوجی نیم مردہ حالت میں بے یارو مددگار پڑے ملے۔ لیکن اتنا سب کرنے کے بعد مجھے کیا ،پوری فوج کو  ساحل کا کوئی نشان نہیں ملا ۔آخر کار فوجی رہائش چھوڑ کے میں ماں کے پاس آگئی۔
ساحل اکیلا نہیں کھو گیا بلکہ  اس کے ساتھ  میری  شناخت میرا وجود بھی کھو گیا۔ گھر کے ایک فرد  کا کھو جانا وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں   جن کے اپنے کھو جاتے ہیں ۔ انکی نظر ہمیشہ دروازے پرلگی رہتی  ہے۔ میں اپنی بات کروں تو میری آنکھیں ہر بازار میں، ہر محفل میں صرف ساحل کو ڈھونڈتی  رہتی تھی۔ میرا دل ویران اور آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔یہ ایسی بےبسی ہے جو انسان کو نہ جینے اور نہ ہی مرنے دیتی ہے۔ دروازے کی ہر دستک سے میرا دل ساحل  کے آنے کی آس لگائے بیٹھا رہتا تھا۔ اسکے خدوخال کا کوئی شخص کوئی شخص اگر رستے میں دکھائی پڑتا تو اسکا تعاقب تب تک کرتی ،جب تک اس کا چہرہ ٹھیک سے نہ دیکھتی۔اب تک یہ اس حادثے کا ذاتی پہلو تھا۔  اس کے بعد کئی اور پہلو سامنے آگئے، جن کے بارے میں کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں تھا۔  کوئی  نام نہاد رشتہ دار، دوست اپنا یا پرایا   جو بھی تھا انہوں نے  بے تکی اور فضول قیاس آرائیاں کرکے ہمارا جینا مشکل کردیا۔ ساحل کے گھر والوں نے بھی سمجھداری نہیں دکھائی۔ بالآخر  انہوں نے ہمیں ساحل کی ہر چیز سے بے دخل کر دیا۔ میری ماں نے کافی ہمت دکھائی، یہاں تک ساحل کے دفتر سے بھی فوری طور کوئی خاطر خواہ مدد نہیں ملی۔
ماں نے سب سے پہلے میرا داخلہ یونیورسٹی کے شعبہ نباتیات میںکروادیا۔ مجھے سنبھلنے میں کافی وقت لگ گیا۔ اماں اور میری دونوں بہنوں نے تم کو سنبھالا۔  سابقہ فوجی کی  بیوی ہونے کے ناطے ماسٹرس کرنے بعد میں مقامی کا لج میں لیکچرار کے عہدے پر فائز ہو گئی۔
پڑھائی کے دوران اور اس کے بعد بھی میں نے ساحل کی تلاش جاری رکھی۔ 
’جوں جوں تم بڑی ہوتی گئی تمہاری شکل وصورت اور  عادتیں بالکل ساحل کے انداز پر اُترنے لگیں ‘۔ بطشا نے ماں کی بات پوری کرتے ہوئے کہا  ’اور اسلئے تم میرے لئے فوجی وردی بنواتی تھی،  اور تصوریں لیتی تھی، حریم مسکرائی اور مزید کہا جب میں ہائی سکول میں پہنچ گئی تو ایک بے نام خط آگیا کہ ساحل زندہ ہیں۔ میں ایک بار پھر جی اٹھی۔میں وہ تحریر لے کر خود آئ جی کے آفس گئی ہوں، انہوں نے چھان بین کرنے کے بعد کہا کہ کسی نے خط لکھ کر مذاق کیا ہے۔میں ناکام کوشش کر کے ٹوٹی حالت میں گھر پہنچ گئی۔ میری حالت دیکھ کر اماں مجھ سے زیادہ ٹوٹ چکی تھی۔ اس  نے مجھے دلاسا دے کر کہا ’بہت ہو گیا اب بس کرو، اتنے سالوں تک اگر ساحل زندہ ہوتا تو کم از کم اس نے کسی ایک بندے سے رابطہ کیا ہوتا ۔ کیوں اپنا جی جان جلا رہی ہو‘۔ 
بطشاء نے پوچھا امی تم بابا کو اتنا چاہتی تھی جبکہ شادی کو صرف ڈیڑھ دو سال ہی ہو چکے تھا۔ حریم نے ٹوٹتی ہوئی آواز میں بولا پیار کبھی کہیں ایک پل میں ہو جاتا ہے اور کہیں کئی یگ گزرنے کے  بعد بھی نہیں ہوتا ۔ بطشاء نے ماں کو آرام کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ تمہارے پاس تم سے پیار کرنے والی میں ہوں، تمہاری بیٹی اور میرے بچے ہیں، یہ کیا کم ہے ۔ حرؔیم نے کہا ،’بے شک میں ہمیشہ اوپر والے کا شکر ادا کرتی ہوں  کہ اس نے مجھے صالح اولاد عطا کی ہے۔  سدا خوش رہو۔  میری تو بس  ایک تمنا باقی رہ گئی ‘۔ بطشا نے کہا تم بتا تو سہی کہ کون سی  تمنا ہے  ’میں انشاءاللہ ابھی کے ابھی پوری  کروں گی ‘۔حریم مسکراکر بولی ’تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔ میری  چاہت تھی کہ جب میں مر جاؤں میرا جنازہ ساحل خود اٹھائے اور لحد تک پہنچا دے‘۔ بطشا نے حیران ہو  کے کہا ’میری ماں تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ہے ،کیا تمہیں ابھی تک اس کا انتظار ہے‘۔حریمؔ نے کہا میری ہمت،  وجود وغیرہ سب کچھ  ختم ہو چکا ہے لیکن پتہ نہیں یہ  کمبخت  اُمیدابھی تک زندہ کیوں ہے۔  اس امید کے سہارے میں ابھی تک زندہ ہوں ۔یہ کہتے ہوئیے اس کو ہچکی لگ گئی اور خاموش ہوگئی۔ بطشاء نے ماں کو پانی پلانے کی کوشش کی۔ صدر بین سے اس کا معائنہ کیا لیکن حرؔیم کی روح  اس ہچکی کے ساتھ ہی پرواز کر گئی تھی  ، اس کا چہرہ  زرد پڑ گیا،مگر آنکھیں کھلی ہوئی تھی۔ بطشاء ماں کو تھپکی دے رہی تھی مگر ساری کوششیں بے کار ہو گیئں۔ اس نے شوہر اور بچوں کو اطلاع دی۔ ماں کا سر گود میں لیکر زار و قطار رو  رہی تھی اور ماں کی آنکھیں بند کرنے کی کوشش کررہی تھی، لیکن اس کی آنکھیں  بند نہیں ہو رہی تھیں۔تھوڑی دیر بعد صدر دروازے کی گھنٹی بجھ گئی بطشاء کی جان میں جان آئی۔ شوہر اوربچے آگئے ۔ وہ روتے ہوئے دوڑ کے دروازہ کھولنے گئی۔ دروازہ کھولتے ہی وہ ششدر ہو کے رہ گئی۔ نہ وہ اس کا شوہر ندیم تھا اور نہ بچے۔ بلکہ اس نے اپنے خدوخال سے ملتا جلتا اجنبی  بزرگ  سامنے کھڑا  پایا ۔ اس نے کانپتے ہونٹوں سے پوچھا آپ کو ن ہیں؟ کس سے ملنا ہے؟ اجنبی  نے نہایت ندامت بھرے لیجے میں کہا  جی میرا نام ساحل ہیں ، کیا یہ حرؔیم کا گھر ہے۔بطشاء کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ خوشی منائی گی کہ ماتم ۔ اُس نے دروازہ کھول کر صرف اتنا کہا ، کہ بابا  آپ نےآنے میں  بہت دیر کردی۔ 
���
 وزیر باغ، سرینگر
[email protected]
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سیاحت کو فروغ دینے کے لئے اپنی پارٹی نے جھیل ڈل میں شکارا ریلی کا انعقاد کیا
تازہ ترین
امریکی صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کو امریکہ مدعو کیا: خارجہ سیکریٹری مسری
برصغیر
سالانہ امرناتھ یاترا: بھگوتی نگر بیس کیمپ کے گرد و پیش سیکورٹی بڑھانے کے لئے واچ ٹاور نصب
تازہ ترین
سرنکوٹ میں خاتون کے قبضے سے ہیروئن جیسی نشہ آورشے برآمد، مقدمہ درج
پیر پنچال

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?