کتیا کی آنکھ لگ گئی تھی اور پلے گلی میں ایک دوسرے کے آگے پیچھے دوڑتے ہوئے کھیل رہے تھے کہ اچانک دھماکے کی سی آواز آئی۔کتیا جاگ کر تھرا اٹھی۔اس نے ایک کار کو بڑی تیز رفتاری سے گلی سے گزرتے دیکھاوہ دو تین چھلانگیں مار کرگھبرائی سی گلی میں پہنچ گئی پھر تیز تیز کار کے پیچھے دوڑتی رہی مگر کار منٹوں میں اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی کتیا۔۔۔ ووں۔۔۔ ووں۔۔ چلاتے ہوئے واپس اسی جگہ آپہنچی جہاں ایک پلے کی لاش پڑی تھی اس پلے کے اند رونی اعضا گلی میں بکھرے پڑے تھے۔دوسرے پلے ششدر ہو کر دیکھ رہے تھے کتیا بوکھلائی سی آگے پیچھے دوڑتی رہی وہ اپنے پنجوں سے گلی میں پڑی پلے کی لاش ہلاتی رہی اور بکھرے پڑے اعضا منہ میں بھر کر پلے کے جسم میں واپس فٹ کر نے لگتی۔اس امید سے کہ شاید اٹھ کھڑا ہو جائے۔بہت کوشش کے بعد جب پلا نہ اٹھاتو کتیا لاش کے قریب بیٹھ کر ماتم کرنے لگی ۔اس کی یہ حالت دیکھ کر لوگ گھبرائے ہوئے تھے اور انھوں نے گلی سے گزرنا ہی چھوڑ دیا۔ کیونکہ انھیں ڈر تھا کہ کتیا حملہ کر ے گی۔کتیا بے چاری وہاں سے ہل ڈھل نہیں رہی تھی وہ کچھ کھا پی بھی نہیں رہی تھی وہ پچھتا رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ آج یہ چُونک کیسے ہو گئی۔اس گلی سے جب بھی کوئی کار گزرتی تھی تو اس کے کان کھڑے ہو جاتے تھے اور کلیجا منہ کو آجاتا۔کار کو دیکھتے ہی وہ اپنے پنجوں پر اٹھ کر پلوں کو آواز دیتی ۔
’’ووں۔۔۔۔۔۔۔۔ووں۔۔‘‘
دو مرتبہ ووں ۔۔۔۔ ووں کرنے کو پلے خطرہ سمجھ کر واپس دوڑ لگا کر کتیا کے پاس چلے آتے اور وہ انھیں اپنی چھاتی کے نیچے چھپا لیتی۔ان کے منہ کو چاٹ چاٹ کر اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کرکے جیسے کہتی۔
’’ خبر دار۔۔۔۔۔۔ میرے پلے نا فہم ہیں انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچائے ۔‘‘
کتیا جب پہلی مرتبہ گلی میں نمودارہوئی تھی تو حاملہ تھی پھر کچھ ہی دنوں بعد گلی کے نزدیک کھڑے شیڈ میں پانچ پلوں کو جنم دیا تھا چوں کہ محلے کے تمام مکان فصیل بند تھے اس لئے کتیا کو غذا کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھا نی پڑتیں وہ جب غذا کی تلاش میں نکلتی تو پلوں کو شیڈ سے باہر جانے سے منع کرتی ۔پلے بھی ماں کی نصیحت پر عمل پیرا ہو جاتے ۔وہ شیڈ میں ہی کھیلتے رہتے۔ کتیا پاس کے مکانوں کا رخ کرتی ۔گیٹ کو اپنے پنجوں سے کھر چتی رہتی ۔پھر دوسرے مکان کی طرف بڑھ کر یہی عمل کرتی مگر اندر بیٹھے لوگ ٹس سے مس نہیں ہو جاتے تو کتیا نامراد واپس پلوں کے پاس لوٹ آتی۔اورسوچتی ۔۔۔۔۔۔
’’ یہ انسان بھی کتنا کٹھور ہو گیا ہے اس کے دل میں تھوڑی بھی ہمدردی نہ رہی اب اس نے مٹھی بند کر دی ہے۔‘‘
کتیا کئی دنوں سے پلے کی لاش کے قریب ہی بیٹھی تھی اوراس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ماں کی یہ حالت دیکھ کرپلے آگے بڑھے اور اس کے منہ کو چاٹ کر اس کے آنسو پونچھتے رہے پھر ایک پلا اس کی دم منہ میں پکڑ کر کھینچتا رہاشاید ماں کو سمجھاناچاہتا تھا کہ جانے والے واپس نہیں آتے ۔کتیا پوری طرح ٹوٹ چکی تھی اس کی آنکھوں میں وہ کار جیسے کیل کی طرح چبھ گئی تھی اور آنسو بہے جارہے تھے۔
ادھر محلے والوں کا گلی سے گزر نا دشوار ہو گیا تھا ۔انھوں نے میونسپلٹی حکام کو آگاہ کیاتو اگلے ہی دن وہ گاڑی لے کر آئے ۔کتیا چوں کہ پلے کی لاش کے قریب بیٹھی تھی گاڑی دیکھ کر وہ سہم سی گئی اور چند گز کی دوری پر کھڑی دیکھتی رہی میونسپلٹی والے پلے کی لاش گاڑی میں لاد کر نکلنے لگے تو کتیا ۔۔۔۔ووں۔۔۔۔ ووں ۔۔۔ کرتے ہوئے دور تک گاڑی کے پیچھے دوڑتی رہی۔گاڑی اس کی نظروں سے جب اوجھل ہوئی تو دوڑ کر واپس پلوں کے پاس آگئی اور زمین پر ٹانگیں پسار کر آنسو بہانے لگی پلے اس کے قریب آکر بیٹھ گئے۔ پلوں کو دیکھ کر کتیا سوچنے لگی۔
’’نہ جانے ان کے بھائی کی لاش کے ساتھ کیا سلوک کریں گے مجھے ان پلوں کو لے کر کہیں دور جانا چاہیے جہاں یہ انسان سے محفوظ رہیں۔‘‘
اور کتیا بستی سے بد دل ہو کر آنسو بہاتے ہوئے چلی گئی۔
���
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر؛6005196878