ویسے بھی اِن خواہ مخواہ کے چونچلوں کی کیا ضرورت ہے جن سے ہمارا ربّ راضی نہ دوست و احباب راضی۔۔۔۔۔۔۔۔ چونچلے چاہے دکھاوے کے ہوں یا مجبوری کے، سماج کیلئے بڑے ہی تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔ سماج کا ہر فرد شعوری اور غیر شعوری طور پر کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح اِن غیر ضروری رسموں میں جھکڑا ہوا نظر آرتا ہے ۔ شادی بیاہ کے چونچلے ، مہندی رات کے چونچلے ، دعوتوں کے چونچلے ، سالگرہ کے چونچلے نیز امیری کے چونچلے وغیرہ۔ انسان کو چاہے کھانے کے لالے ہی کیوں نہ پڑیں ہو اِن چونچلوں سے واسطہ رکھنا پڑتا ہے۔
انور :۔ ” تم بھی نا ! صبح صبح یہ کون سا فلسفہ جھاڑنے لگے ہو۔ “
ساجد :۔ ” اچھا تمہیں میری باتیں اب فلسفہ لگنے لگی ہیں۔ میں کوئی فلسفہ ولسفہ نہیں جھاڑ رہا ہوں بلکہ حقیقت بتا رہا ہوں۔“
انور :۔ کون سی حقیقت ۔ تم کس حقیقت کی بات کر رہے ہو۔؟
ساجد :۔ ” تمہیں میری باتیں بھلا کب سمجھ میں آئی تھی جو اب آجائیں گی ۔“
انور :۔ کون سی باتیں ۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ “
ساجد :۔ اوہو یار! میں پہلے سے ہی سخت پریشان ہوں اوپرسے تم۔۔۔!!!!
انور :۔” دیکھو یار ! تم اتنی مشکل باتیں کرتے ہو جو میری کیا کسی کی بھی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ صاف صاف بتائو تم کہنا کیا چاہتے ہو۔ “
ساجد :۔ ”میں کس کی بات کروں گا ۔ یہاں بات کرنے کیلئے بچا ہی کیا ہے جو میں تمہیں سمجھا دوں۔“
انور :۔ ” پہیلیاں مت بجھائو۔ کہوں نا ! کیا کہنا چاہتے ہو۔“
ساجد :۔ ” یہی سماج دن بہ دن غیر ضروری رسموں میں جھکڑتا ہوا نظر آرہا ہے۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اِن غیر ضروری رسموں میں ملوث نظر آرہا ہے۔ امیر کا کیا بیچارے غریب ہی ہر لحاظ سے ان غیر ضروری رسموں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ “
انور :۔ ” ہاں یار ! کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔ “
ساجد :۔ ”کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ اِن غیر ضروری رسموں کو سِرے سے ہی ختم کیا جائے۔“
انور :۔ ” کیوں نہیں، نا ممکن تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اِن رسموں کو بڑھاوا دینے والے بھی تو ہم ہی ہیں۔ “
ساجد :۔ ” ہاں یار ! تم بجا فرما رہے ہو ۔ اِن چیزوں کے ذمہ دار بے شک ہم ہی ہیں۔ “
انور :۔ ”ہمارے یہاں نا سماج کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بجائے اللہ کے لوگوں کو خوش کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔“
ساجد :۔ ”واقعی یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہم لوگ ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ؟ اگر ہم نے یہ نہیں کیا تو فلاں کیا کہے گا۔ بس اسی ایک غلط سوچ نے ہمارے معاشرے کا بیڑہ ہی غرق کر دیا ہے۔“
انور :۔ ” ویسے بھی اِن چونچلوں کی کیا ضرورت ہے جن سے ہمارا ربّ ناراض ہو۔ یہ بات لوگوں کے ذہن میں کب آئے گی کہ ہمیں ہمارے ربّ کو راضی کرنا ہے نہ کہ لوگوں کو۔“
ساجد :۔ ”اِن چونچلوں نے تو سماج میں ایک ناسور کی حیثیت اختیار کی ہے۔ آئے روز اخباروں میں یہی خبر یں دیکھنے کو مل رہی ہیںکہ فلاں جگہ پر فلاں لڑکی نے خود کشی کی ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ یہی غیر ضروری رسمیں ہیں۔آئے روز کوئی نہ کوئی غریب لڑکی ہی اِن غیر ضروری رسموں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔“
انور :۔ ”ہاں یار ! اِن سب چیزوں کے ذمہ دار ہم لوگ ہی ہیں۔ قیامت کے روز ہم اپنے رب کو کیا منہ دکھائیں گے ایک نہ ایک دن ہمیں اللہ کے حضور جوابدہ ہونا ہی پڑے گا۔ اللہ ہماری بیٹیوں اور بہنوں کے نصیب بہتر کرے۔ اور ہمیں اِن بدعات سے دور رکھے جن چیزوں سے ہمیں ہمارے دین اسلام نے بھی بار بار دور رہنے کی تلقین کی ۔
ساجد :۔ ”آمین ثمہ آمین۔۔۔۔۔۔ اللہ تمہاری زبان کو مبارک کرے۔“
���
ایسو ( اننت ناگ )