بُھول
صبح نیند کھلتے ہی مجھے اپنے ہمسایہ سلمان صاحب کے گھر سے انکی بیوی کے رونے کی آواز سنائی دی۔میرے ان سے اچھے مراسم تھے۔جا کر دیکھا تو سلمان صاحب اپنی اہلیہ کو زور سے پیٹ رہے تھے- میں نے بڑی مشکل سے ان کی بیوی کو بچایا اور مارنے کی وجہ پوچھی ۔
" گذشتہ شب کو ہم شادی کی ایک تقریب میں مدعو تھے۔ وہاں اس نے میری عزت نیلام کر دی اور میرے منع کرنے کے باوجود اس بے حیاء نے میری بات نہیں مانی "کہتے ہوئے وہ رو پڑے ۔پھر انہوں نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور فیس بک پر اپنی بیوی کا ڈانس والا ویڈیو دکھانے لگے اور میں کمرے میں کھڑا سوچ رہا تھا بھول کس کی تھی ۔۔۔؟؟
نجات
"جج صاحب! اچانک کہاں کھو گئے۔؟" ارشد، جو کہ جج صاحب کا قریبی دوست تھا، 'چائے کی چسکی لیتے ہوئےپوچھ بیٹھا۔
" کچھ نہیں دوست! سوچ رہا ہوں کہ جج کی نوکری سے استعفی دے دوں!!"
"ارے یار!! آج کل سرکاری نوکری ملتی کہاں ہے؟ارشد یہ غیرمتوقع بات سن کر بولا" اور آپ ایسی باعزت اور شان وشوکت والی نوکری کو چھوڑنے کی بات کررہے ہیں۔ آپ کے منصفانہ فیصلوں کے چرچے سارے شہر میں ہوتے رہتے ہیں۔ "
"بس ارشد اب کوئی اور بات کریں۔ " جج صاحب نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
"نہیں 'ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔ " ارشد اب سنجیدگی سے بول پڑا"آپ کی ایمانداری اور انصاف پسندی کے تو لوگ گیت گاتے ہیں۔۔۔ پھر ایسا سخت فیصلہ لینے کی کوئی خاص وجہ۔۔۔؟
"اب میں کیا بتائوں" جج صاحب مایوس لہجے میں سرد آہ بھرتے ہوئےبول پڑے"اسی ایمانداری اور انصاف کو سیاست نے اپنا غلام بنائے رکھا ہے اور میں غلامی سے نجات چاہتا ہوں۔۔۔
تلگام پٹن، موبائل نمبر9797711122