ہاشم ندیم کی ناول ۔’’خدا اور محبت‘‘ (۲) تبصرہ

سہیل بشیر کار،بارہمولہ

کامران نے گہری سی سانس لی۔ بات بالکل صاف ہے۔ یہودی کبھی تلخ کلامی سے کام نہیں لیتا اور بزنس کا پہلا اصول ہی خوش اخلاقی ہے۔ سخت سے سخت حالات میں بھی اس کے ہونٹوں سے چپکی مخصوص مسکراہٹ کبھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ دوسری اہم وجہ ایک یہودی کا دوسرے یہودی تاجر کا خیال رکھنا ہے۔ دو یہودی تاجر آپس میں بدترین اور جانی دشمن بھی کیوں نہ ہوں لیکن اگر ان کا کلائنٹ کوئی ایسی چیز طلب کرتا ہے جو پہلے یہودی کی دوکان پر میسر نہ ہو، تب بھی وہ خود پیدل چل کر اس خریدار کو اس جانی دشمن یہودی کے پاس لے کر جاتا ہے، جہاں اسے وہ ضروت کی چیز مل سکتی ہو۔ یہودی کبھی کسی غیر یہودی کو متعارف نہیں کرواتا۔ یہی اس یہودی تجارت کے پنپنے کا راز بھی ہے۔میں کامران کے خیالات سے کسی حد تک متفق بھی تھا لیکن میرے خیال میں اس نے یہودی تاجروں کی سب سے بڑی معصومیت کا تذکرہ اب تک نہیں کیا تھا۔ داتم سب سے اہم خصوصیت کا تذکرہ کرنا بھول گئے ہو۔ وہ بے ایمان داری۔

 

یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے تاجر اتنے خوش اخلاق اور ٹھنڈے مزاج کے نہیں ہوتے یہ بھی درست ہے کہ ہم ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے بھی کبھی باز نہیں آتے ۔ ہمارا اصول ہے کہ اپنا فائدہ ہو نہ ہو لیکن دوسرے کا نقصان ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن ان سب سے زیادہ بڑی وجہ ہے، بے ایمانی اور یہودی تجارت میں بے ایمان نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں ان کی کامیابی کا اصل راز یہی ہے۔ (صفحہ 38) ہالوکاسٹ کو یہودیوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ دنیا کی ہمدردی حاصل ہو،اس کتاب میں ہولو کاسٹ کے بارے میں بہت ہی اہم معلومات ہے: ’’یہودیوں نے اپنے اوپر ہونے والے نام نہاد مظالم کو سب سے زیادہ جرمنی سے منسوب کرنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے جرمنوں پر 1298ء میں جرمن نائٹ رنڈ فلیش کی سرکردگی میں جرمنی میں موجود ایک سو چھیالیس یہودی بستیوں میں قتل عام کا الزام لگایا گیا۔ پھر 1336ء میں دوسو یہودی بستیوں کو تباہ کرنے کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ لیکن سب الزاموں سے بڑھ کر الزام یہودی لیڈر ڈیوڈ بن گورین نے دوسری جنگ عظیم کے بعد ہٹلر پر لگایا کہ اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران پچاس لاکھ سے زائد یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر ختم کروایا تھا۔ کچھ لوگ یہ تعداد 60 لاکھ تک بتاتے ہیں اور یہودی اسی عظیم الشان اموات کے نظریہ کو ہالوکاسٹ کہتے ہیں۔‘‘

 

 

میں نے حیرت سے جوزف کی طرف دیکھا: ’’لیکن اتنی بڑی تعداد میں اگر یہودی مارے گئے ہوں گے تو ان کی موت کا کوئی ثبوت بھی تو ہوگا۔ دوسری جنگ عظیم اور ہٹلر کا زور تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔‘‘ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ حتیٰ کہ ثبوت ڈھونڈ نے والوں اور اس نظریے کے خلاف جانے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔ ابھی پچھلے سال ہی آسٹریا کی ایک عدالت نے تاریخ کے ایک استاد پروفیسر ڈیوڈ ارونگ کو تین سال کی سزائے قید سنائی ہے۔ صرف اس جرم میں کہ اس نے ہالوکاسٹ کے دوران یہودیوں کے قتل عام کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ (صفحہ 167)
مزید لکھتے ہیں: “ہالوکاسٹ کا یہ تمام پرو پیگنڈا یہودیوں نے صرف اور صرف فلسطین کی سرزمین پر اپنی ایک آزاد ریاست بنانے کا خواب پورا کرنے کے لیے کیا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی اس ڈرامے کو اسٹیج کرنے کی پوری تیاری کرلی گئی تھی ۔ اس وقت چندہ جمع کرنے کی عظیم الشان مہم شروع کر دی گئی تھی۔ امریکہ، برطانیہ اور روس نے جرمن قوم کو برباد کرنے کے لیے یہودیوں کو غداری پر آمادہ کر لیا تھا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ زخم خوردہ جرمن قوم پلٹ کر ان پر وار ضرور کرے گی ۔ وہ جرمنوں کو ہٹلر کی قیادت میں یکجا ہوتے ہوئے دیکھ چکے تھے اور ہٹلر کے عزائم بھی اس کی جنگی تیاریوں سے بالکل واضح تھے۔ اس لیے انہوں نے یہودیوں کو قبلہ اول پر قبضے کا خواب دکھایا اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ان کی پوری مدد کر نے کا یقین بھی دلایا۔ ہالوکاسٹ کا الزام تو ہٹلر اور جرمنوں پر دوسری جنگ عظیم کے بعد لگایا گیا تھا لیکن اس کی قیمت فلسطین کے مسلمانوں نے یہودی بستیوں اور پھر اسرائیل کی صورت میں چکائی۔ اگر ہٹلر ہالوکاسٹ کا ذمہ دار تھا بھی، تو یہودی اس بہانے فلسطین کے مسلمانوں پر کیوں ٹوٹ پڑے؟ اور سچ یہی ہے کہ ہالوکاسٹ میں پچاس لاکھ سے ساٹھ لاکھ تک یہودیوں کے مارے جانے کی کہانی صرف اور صرف مفروضہ ہی ہے۔ اتنے بڑے اور اتنے وسیع پیمانے پر گیس چیمبرز کا بنایا جانا ہی ممکن نہیں تھا۔ جن گیس چیمبرز پر یہودی قاتل گیس چیمبرز ہونے کا الزام لگاتے ہیں ، وہ صرف جرمن فوجیوں کی لاشوں کو جنگ کے دوران ٹھکانے لگانے کے لیے بنائے گئے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ ان چیمبرز کو بھی ٹھیک طرح سے چلانے کے لیےجرمنوں کے پاس پورا ایندھن موجود نہیں ہوتا تھا۔ جرمن پہلے ہی اپنا سب کچھ جنگ میں جھونک چکے تھے۔ ان گیس چیمبروں میں جھونکنے کے لیے ان کے پاس کوئلہ تک کافی مقدار میں نہیں بچا تھا۔ یہ صرف اور صرف ایک صیہونی تحریک ہے، جس کا مقصد اپنے مفاد کے لیے ہلاکتوں کی تعداد میں زبر دست مبالغہ چاہتی ہے۔ تا کہ خود کو مظلوم ثابت کرنے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ (صفحہ 313)

 

 

کہانی کہانی میں ہی مصنف بہت سی اہم کتابوں کا تعارف کرواتے ہیں ساتھ ہی بہت سے نغموں کی بھی… یہاں زندگی کا فلسفہ ہے، عشق اور محبت کیا ہے اس کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ محبت کے مراحل کا ذکر بھی ہے۔مصنف قاری کے سامنے فلماتے ہیں ، ایمان کو قریب سے دیکھنے کا منظر یوں دکھاتے ہیں :”مجھے زندگی میں پہلی بار اس کے حسن کو اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس کی ستارہ جبیں، بڑی بڑی کالی آنکھوں ستواں کی چھوٹی ناک اور لال زمرد جیسے نازک سرخ لبوں کی پنکھڑیاں ،ٹھوڑی کا خم جیسے کسی مصور نے بڑی ادا سے رنگوں کو ایک مخصوص زاویے پر لا کر موڑ دیا ہو۔ کہیں بھی تو کچھ کمی نہیں تھی۔ اک عجب سانور تھا اس مہ رخ کے چہرے پر۔‘‘(صفحہ 256)
کتاب کو الف پبلشرز سے نہایت ہی عمدہ گیٹ اپ میں شائع کیا گیا ہے۔ 384 صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔امید ہے پبلشر بہت جلد ہاشم ندیم کے دوسرے ناول بھی شائع کرے گا۔کتاب فون نمبر 9718648338 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
مبصر سے رابطہ: 9906653927