گِدھ افسانہ

filter: 0; fileterIntensity: 0.0; filterMask: 0; module:31facing:0; hw-remosaic: 0; touch: (-1.0, -1.0); modeInfo: Beauty Bokeh ; sceneMode: Night; cct_value: 5882; AI_Scene: (-1, -1); aec_lux: 71.078064; hist255: 0.0; hist252~255: 0.0; hist0~15: 0.0;

سبزار احمد بٹ

جولائی کا مہینہ چل رہا تھا ۔ شدید گرمی تھی ۔آیت کالج سے واپس آئی تو کافی تھکی ہوئی تھی ۔ شدید گرمی کے باوجود آیت نے عبایا اوڑھا تھا اور چہرے پر نقاب تھا۔ اللہ نے آیت کو حسن کی نعمت مالا مال کیا تھا۔ اندر آتے ہی پانی کا گلاس پی کر دم لیا۔ ابھی ٹھیک طرح سے سانس بھی نہیں لی تھی کہ باپ نے پھر وہی سوال پوچھا ۔ آیت کیا سوچا تم نے شادی کے بارے میں ؟
بابا آپ مجھے بار بار یہی سوال کیوں پوچھتے ہیں ۔ ایسا کیا کیا میں نے ۔ آپ نے درسگاہ بھیجا تو میں نے تین سال میں قرآن حفظ کیا ۔ اب میں نے آپ کے کہنے پر کالج جوائن کیا اور بی ۔ اے بھی کر چکی ہوں ۔میں آپ کا ہر حکم بجا لاتی ہوں ۔ بے فکر ہو جائیے میں کبھی آپ کو شکایت کا موقع نہیں دونگی ۔ آیت کو لگا کہ شاید بابا کا موڑ ان کی باتوں سے خراب ہو گیا ۔ وہ فوراً اپنے بابا کے گلے لگ گئی، اس کے ماتھے پر محبت سے بوسہ دیا اور پیار سے کہنے لگی، آپ ہی بتائیے بابا پہلے آپ کی سرجری کرنا ضروری ہے یا میری شادی ۔؟
بیٹی لڑکیاں پرایا دھن ہوتی ہیں جنتی جلدی اس کی شادی ہو اور ان کا اپنا گھر بسے اتنا اچھا ہے ۔ تم اس معاشرے کو نہیں جانتی ہو۔ یہاں انسان نہیں گدھ رہتے ہیں گدھ ۔ وہ موقع دیکھ کر انسان کو نوچ لیتے ہیں ۔
نور محمد ایک حلیم اور شریف انسان ہونے کے ساتھ ساتھ صوم الصلوٰۃ کا بھی پابند تھا۔ اللہ نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی عنایت فرمائی تھی۔ چند سال پہلے بیوی ایک مہلک مرض میں مبتلا ہو کر چل بسی ۔ سلمہ کی موت نے نورمحمد کی کمر توڑ دی۔ اب اپنے بچوں کی طرف دیکھ کر زندگی گزارنے لگا تھا۔ سلمہ کے موت کے ایک سال بعد نورمحمد کو دل کا دورہ پڑا۔ وقت پر اسپتال پہنچنے سے بچ توگیالیکن ڈاکٹروں نے صلاح دی کہ سرجری کرنا ضروری ہے۔ نور محمد نے محنت مزدوری کر کے تین لاکھ روپے جمع کئے تھے سرجری کے لئے ۔ اب ساری امیدیں بیٹے پر تھیں لیکن بیٹا بری صحبت کا شکار ہوگیا ۔ وہ دوستوں کے ساتھ رنگ رلیاں مناتا تھا اور آدھی آدھی رات کو گھر آتا تھا ۔ نہ بہن کی عزت کی فکر تھی اور نہ باپ کے صحت کی پرواہ ۔ وہ نشے کی لت کا شکار ہو گیا تھا ۔ کبھی کبھی اپنے والد صاحب سے ویڑاول فارم یا چیک پر کہہ کر دستخط کرواتا تھا کہ اسے پانچ سو یاایک ہزار روپے کی سخت ضرورت ہے ۔ چونکہ ایک ہی بیٹا تھا لہٰذا نور محمد چیک وغیرہ پر دستخط کر لیتا تھا ۔ایک دن نور محمد نے اپنے بیٹے کو بلایا ۔ بیٹا میں نے محنت کر کے تین لاکھ روپے جمع کئے تھے اپنی سرجری کے لئے ۔ لیکن یاد رکھنا اگر مجھے کچھ ہو گیا تو سب سے پہلے بہن کی شادی کسی اچھے گھرانے میں کرانا۔ بیٹے نے اثبات میں سر ہلایا اور نکل گیا پھر اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے۔ تب سے اب تک مسلسل نور محمد اپنی بیٹی آیت سے شادی کے بارے میں کہتا رہااور بیٹی ہر بار یہ کہہ کر انکار کرتی رہی کہ میری شادی سے آپ کی سرجری بہت ضروری ہے اور اگر میری شادی ہو گی تو آپ کا خیال کون رکھے گا ۔ آج بھی جب بیٹی نے شادی سے انکار کرنا چاہا تو والد صاحب نے صاف صاف کہہ دیا کہ بیٹی گاؤں کا سرپنچ تمہارا ہاتھ مانگنے آیا تھا اپنے پاگل اور آوارہ بیٹے گلو کے لئے کہہ رہا تھا کہ اگر میں تمہاری شادی اس کے پاگل بیٹے سے کر دوں تو میری سرجری کا خرچہ وہ اٹھائے گا ورنہ وہ رقم فل فور ادا کرنی ہو گی جو میں نے اس سے تمہاری ماں کے علاج کے لئے ادھار لی تھی ۔
لیکن بابا وہ رقم تو چار سال میں ادا کرنی طے پائی تھی اور سرپنچ نے اس رقم کا باضابطہ ہم سے سود بھی وصول کیا ہے۔
ہاں بیٹی لیکن یہ اثررسوخ والے لوگ قانون خود طے کرتے ہیں ۔ ہماری کون سنتا ہے ۔ وہ بہت ظالم ہے اس کی نظر تم پر ہے اور تمہارے بھائی کو دیکھ کر نہیں لگ رہا ہے کہ وہ چار سال کے بعد بھی سر پنج کی رقم چکا پائے گا اور وہ تمہارا خیال رکھ پائے گا ۔
اس لئے میں اپنی موت سے پہلے تمہاری شادی کرانا چاہتا ہوں ۔ تاکہ تو ان ظالموں کے چنگل سے بچ جائے ۔ معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے آیت خاموش ہو گئ اور اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ ماں زندہ ہوتی تو اپنا من ہلکا کر لیتی لیکن اس نعمت سے اللہ نے پہلے ہی محروم کر دیا تھا۔ خیر نورمحمد کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ اب بیٹی شادی کی بات نہیں ٹالے گی ۔ اب نور محمد اپنی بیٹی کے لئے کوئی شریف اور دیندار گھر ڈھونڈنے میں لگ گیا ۔ اتفاق سے اسے ایسے ایک لڑکے کے بارے میں پتہ چلا جو نہایت ہی شریف اور پڑھا لکھا ہونے کے ساتھ ساتھ صوم الصلوات کا بھی پابند تھا ۔ نور محمد نے اس گھر کو شادی کا پیغام بھیج دیا ۔ اور انہوں نے پیغام تسلیم کر کے شادی کے لئے اقرار بھی کیا ۔نور محمد کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی ۔ فوراً گھر آیا اور بیٹی سے یہ بات کہہ دی اور اس سے جواب مانگا۔
بابا میں نے کبھی آپ کی بات ٹالی ہے جو اب ٹالوں گی۔ آپ نے جو گھر اور لڑکا میرے لیے چنا وہ اچھا ہی ہوگا ۔نور محمد نے بیٹی کا جواب سن کر اس کو گلے سے لگایا اور اس کا ماتھا چوما۔اس کی آنکھوں سے دو موٹے اور گرم گرم آنسوں بیٹی کے دامن میں آگئے۔
بابا یہ کیا آپ رو رہے ہیں ۔ نہیں نہیں بیٹی یہ خوشی کے آنسوں ہیں ۔ لوگوں کو بیٹوں پر ناز ہوتا ہے اور مجھے اپنی بیٹی پر ناز ہے ۔ چلو ہم بینک جا کر پیسے لائیں گے اور شادی کے لئے ضروری سامان خریدیں گے۔ تب تک تمہارا بھائی بھی بینک پہنچ جائے گا ۔میں نے اس کو فون پر بتایا ہے ۔ نور محمد جب کاونٹر پر پیسے نکالنے گیا تو وہاں سے اسے بتایا گیا کہ آپ کے اکاؤنٹ میں کوئی بھی پیسہ نہیں بچا ہے ۔ نور محمد کو لگا کہ شاید انہیں کوئی غلط فہمی ہو رہی ہے وہ سیدھا منیجر کے کمرے میں گیا اور منیجر سے کہا جناب میں نے اکاونٹ میں تین لاکھ روپے رکھے ہیں لیکن کاونٹر پر بیٹھا آپ کا ملازم کہہ رہا ہے کہ اکاونٹ میں کچھ بھی نہیں ہے ۔ منیجر نے جب اکاؤنٹ چک کیا تو اس نے بھی وہی الفاظ دہرائے کہ جناب آپ کے اکاؤنٹ میں واقعی کوئی پیسہ نہیں ہے ۔
نہیں نہیں منیجر صاحب غور سے دیکھئے میں نے ہی وہ پیسے چند دن پہلے رکھے ہیں، ضرور آپ کو کوئی غلط فہمی ہو رہی ہے ۔ میری بیٹی کی شادی ہے
ہاں ہاں آپ نے پیسے رکھے تو تھے لیکن خود ہی واپس بھی نکالے ہیں ۔ ہمارے پاس تو آپ کے دستخط کئے ہوئے ویڑراول اور چیک موجود ہیں ۔ یہ سننا تھا کہ نور محمد کو فوراً وہ سارے چیک اور ویڑراول فارم یاد آئے جن پر اس نے بیٹے کے کہنے پر دستخط کئے تھے ۔ یہ سب یاد آتے ہی نور محمد پر غشی طاری ہو گئی اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں جیسے حسرت بھری نظروں سے اپنی فرمانبردار بیٹی کو دیکھ رہا ہو ۔ ایسا لگا کہ جیسے وہ اپنے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کو ظالموں کے حوالے کر رہا ہو اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا ۔ آیت چلانے لگی بابا!!!!!!!! بابا!!!!!!!!!!!!! مجھے چھوڑ کر کہاں جارہے ہو ۔ بابا بابا مجھے کس کے سہارے چھوڑ کے جا رہے ہو ۔
آیت نے بابا کا سر اپنی گود میں رکھا اور زور زور سے رونے لگی ۔ اتنے میں بینک میں موجود سارے لوگ ان دونوں کے ارد گرد جمع ہو گئے آیت نے سر اٹھا کر ان سب کی طرف دیکھا، حوصلہ دینے یا آیت کے بابا کو اٹھانے کے بجائے تو کچھ لوگ ہاتھوں میں موبائل لے کر آیت کا ویڈیو بنا رہے تھے ۔ آیت بے بس ہو کر ان سب کی طرف دیکھنے لگی اسے لگا کہ جیسے وہ ایک ویران جنگل میں اکیلی ہے اور اس کے ارد گرد بہت سارے گدھ جمع ہو گئے جو اس کی بوٹی بوٹی نوچنے والے ہیں ۔

���
اویل نورآباد ،کولگام