’’گاشوسَتھ گاش وَندایو‘‘۔رنجور تلگامی کی ایک اورکتاب تبصرہ

بشیر اطہر

اردو اور کشمیری زبان کے مفکر،تنقید نگار شاعر اور قلمکار رنجور تلگامی کی ،کشمیری زبان میں تحقیقی اور تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ’’گاشو سَتھ گاش وندایو‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔191 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہر لحاظ سے معتبر اور قابل تقلید ہے،اور کشمیری زبان و ادب پر تحقیق کرنے والوں کے لئے کارآمد ثابت ہوگی۔ اس کتاب کےابتدائی صفحات پر پروفیسر فاروق فیاض، ڈاکٹر شاد رمضان اور رفیق راز کے تبصرے بھی شامل ہیں۔ پروفیسر فاروق فیاض نے لکھا ہے، کہ ’’ جو توقعات کشمیری زبان وادب کے بہی خواہوں اور کشمیری زبان وادب کےطالب علموں کے رنجور تلگامی کے ساتھ وابستہ تھے، وہ ان توقعات پر کھرے نہیں اُترے ہیں اور انہوں نے اپنے پیچھے ایسا کچھ نہیں چھوڑا ہے، جس کی ہمیں توقعات تھے۔‘‘ خیر، نظر اپنی اپنی خیال اپنا اپنا۔ میری ذاتی رائے ہے کہ رنجور تلگامی نے آج تک جو کچھ بھی شائع کیا ہے ،وہ سب متاثرکُن،علمی دولت سے مالا مال ، زبان وادب کی سچائی پر منحصراورفضولیات سے پاک ہے۔ کتاب کےمتعلق پروفیسر شاد رمضان اور رفیق راز نے اپنی نہج برقرار رکھ کر مصنف کی ڈھارس تو بندھائی مگر کتاب میں شامل مضامین میںموجود خوبیوں یا نقائص پر کُھل کر بات نہیں کی ہے۔گویا تبصرہ نگاروں نے اس کتاب پر صرف تبصرہ ہی لکھا ہے اور تنقید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔راقم نے اس کتاب کا حرف بہ حرف مطالعہ کیاہے۔ کتاب میں محققانہ انداز سے مضامین شامل کئےگئے ہیں اور ہر مضمون کو تنقیدی زاویوں سے پرکھ کر، باریک بینی کے ساتھ شعوری ذہن کو بروئے کار لاکر دقیق اندازسےزبان دینے کی کوشش کی گئی ہے، جومطالعہ کرنے والے کے ظاہری وباطنی حِس کو جگانے کا بھی کام کرتی ہے۔ اس میں شامل پہلا مضمون”کاشر زبانی ہندی مسئلہ لِسانی تحریک تہ امکانات”میں کشمیری زبان وادب کے ساتھ درپیش مسائل کو وسیع پیمانے پر خامہ فرسائی کی گئی ہے اور ان مسائل سے نمٹنے کی ترکیب بھی پیش کی گئی ہے،رنجور صاحب نے اس مضمون میں کشمیری زبان وادب سے وابستہ ادبی انجمنوں اور سرکاری اداروں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔’’کشیرِ اندر تصوُفچ تاریخ تہ تحریک ‘‘میں کشپ رشی کے زمانے سے لیکر کشمیر کے پہلے صوفی بُزرگ بلبلؔ شاہؒ صاحب، میر سید علی ہمدؔانیؒ اورشیخ نورالدین ولیؒ کی صوفیانہ زندگی اور مزاج سے واقفیت دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ علم توحید، علم فلسفہ، علم تصوف اور علم منطق کے پیرائے میں سبھی صوفیائے کرام کا تذکرہ اس باب میں وسعت کے ساتھ کیا گیا ہےاورتصوف وسلوک کے بارے میں بھی جانکاری فراہم کی ہے۔ حضرت شیخ شرف الدین المعروف بُلبُل شاہؒ کا سلسلہ حضرت موسیٰ کاظمؑ کے ساتھ مِل رہا ہے اور سُہروردی سلسلے کے پیروکار تھے ،مگر یہاں یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ رنجور صاحب نے کاظمؓ کے ساتھ رضاؓ کیوں ملایا ہے کیونکہ حضرت علی رضا، حضرت موسیٰ کاظم کے فرزند تھے، اگر بُلبُل شاہ صاحبؒ کاحسبی سلسلہ اُن کی اولاد یعنی علی رضاؑ کے ساتھ ملتا ہے تو تصوُف کے لحاظ سے آپ کارضوی ہونا محال تھا۔رنجور تلگامی نےرمضان بٹ گنستان کے متعلق بھی پُرفکر اور تحقیقی مضمون پیش کیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ استاد شائد وادی کشمیر کے پہلے نقاد اور محقق ہیں جنہوں نے رمضان بٹ گنستانی کے متعلق لکھ کر ادبی دنیا کو ایک ایسے شاعر سے واقف کرایا ہے، جس کے متعلق مزید تحقیقات کرنے کی گنجائش ہے۔ انہوں نے زبان وادب سے وابستہ نئی نسل کو ایک تحریک دی ہے کہ جس طرح آپ نے رمضان بٹ گنستانی کے متعلق تحقیق کی ہے، اسی طرح سے کشمیر میں ایسے بہت سے گمنام شخصیات ہوں گی جو زبان وادب سے وابستہ رہے ہوں، مگر ان کے بارے میں ابھی تک کسی نے قلم نہیں اٹھایا ہے۔ چنانچہ عصرِ حاضر کی طرح ماضی میں بھی کشمیری زبان وادب پر کام کرنے والے بہت لوگ تھے،جن کام بھی کسی قیمتی اثاثہ سے کم نہیں ہے۔ وحدتُ الوجود اور وحدت الشہود سے واقف رنجور تلگامی نے سوچھ کرال پر ایک بہترین تبصرہ لکھ کر قارئین کو اُن اصطلاحات اوررموزات سے باخبر کیا ہے جو سوچھ کرالؔ کی شاعری میں موجود ہیں۔ انہوں نے تصوف اور سلوک کے بارے میں تاثرات پیش کرکے ان طالب علموں کےلئے راہیں ہموار کی ہیں جو تصوف اور سلوک پر کام کرنا چاہتے ہیں۔رنجور صاحب نے لکھا ہے کہ ’’سلوک کے سفر میں ایک مقام ایسا ہے جس کو’ سیرِ الی اللہ ‘کہتے ہیں اور اس کے بعد’سیرِ فی اللہ ‘ایک اور مقام ہے، جس کی کوئی انتہا نہیں ہے اور سیر الی اللہ خدا کی طرف سفر کرنا ہے ،سفر کے اس مقام پر سالک ذات کے تجلی سے بہرمند ہوتا ہے اور وہ مغلُوب الحال ہوجاتا ہے، وہ ذوقِ مستی کی حالت میں اپنے آپ کو حق پر نہ ہونے کے باوجود حق تسلیم کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح انہوں نے فلسفیانہ انداز میں یہ بھی لکھا ہے کہ سوچھ کرال کی شاعری میں وحدت الوجود کیسے پایا جاتا ہے، ایک اور خوبصورت پیرائے میںرنجور تلگامی نے’’کاشِر صوفی شاعری تہ جمالیات‘‘ پر روشنی ڈالی ہے۔ یہاں کے نقادوں میں ایک تاثُر پایا جاتا ہے کہ کشمیر کے شاعروں کی شاعری میں جمالیات کی کمی پائی جاتی ہے اور جمالیاتی عنصر صرف اور صرف انگریزی ادیبوں جیسے وارڈس ورتھؔ کی شاعری میں ہی پایا جاتا ہے، جس سے رنجور تلگامی منحرف ہیں اورکہتے ہیں کہ کشمیری صوفی شاعری میں جمالیاتی پہلو کھلے عام نظر آتا ہے اور لکھتے ہیں کہ یہاں کی شاعری میں اس قسم کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ ایک قاری کی عقل دھنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح رنجور تلگامی نے جمالیاتی پہلوؤں کو اس مضمون میں سمیٹ کر ایک خوبصورت مضمون بنایا ہے اور حُسن وجمال کی تعریفیں کرکے قارئین کوایک ایسے سفر کی طرف لیجانے کی کوشش کی ہے ،جس سفر میں قاری کوئی نہ کوئی سبق ضرور حاصل کرتا ہے۔ رنجور تلگامی صرف یہیں تک محدود نہیں رہے بلکہ ہمیں آہستہ آہستہ علم کے ایک ایسے سمندر میں غوطہ زن کرتےرہے، جس سے ہم واقف نہیں تھے۔ انہوں نے کشمیر کے مشہور و معروف صوفی شاعر احد زرگر کی صوفیانہ شاعری کے متعلق جانکاری فراہم کرکے اس صوفی شاعر کی شاعری میں اکثر استعمال کیا ہوا ایک کشمیری لفظ”کینہہ نہ” پر سیر حاصل گفتگو کی ہے کہ کیسے صوفیاء اس لفظ کو لیتے، اور استعمال کرتے ہیں۔ کتاب کو مزید خوبصورت بنانے کےلئے دور جدید کے کئ شعراء کے کلام پر بھی خامہ فرسائی کی گئی ہے۔ علمبردارِ کشمیر شیخ نورالدین ولیؒ کے متعلق روح افزا مقالہ بھی کتاب میں شامل ہے، جسے پڑھ کر لگتا ہےکہ یہ مضمون روحِ کتاب ہے کیونکہ علمدار کشمیر ؒ تصوف کا سرچشمہ ہیں، ان کے ہاں تصوف کے بہت سارے چشمے رواں ہیں، جن کی وجہ سے کشمیری صوفی بزرگ فیضیاب ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مگر رنجور تلگامی نے شیخ کامل کےان سالکوں یا تلمیذ کے متعلق جانکاری فراہم نہیں کی ہے جنہوں نے شیخ نورالدین ولیؒ کے زیرِ سایہ تربیت پائی ہے۔ اگر اُن کے بارے میں بھی ذکر ہوتی تو یہ کتاب مزید دلچسپ ثابت ہوتی، کیونکہ اکثر محققین نے اس بارے میں اپنی آنکھیں موند لی ہیں اور صرف شیخ نورالدین ولیؒ کا ذکر کیا ہے۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں امین کامل کا تصوف کے متعلق تحقیق،منشور بانہالی، مرزا عارف کی شاعری میں بھائی چارہ اور محبت کے علاوہ عمہ خوجہ کے متعلق بھی قلم اٹھایا گیا ہے۔ اگرچہ حجم کے اعتبار سے یہ کتاب چھوٹی ہے مگر یہ رنجور تلگامی کاایک بہت بڑا شہکار ہے اور کشمیری زبان وادب کےلئے سونے پہ سہاگہ ہے۔ کتاب میں شامل مضامین اس طرح سجائے گئے ہیں جس طرح انگوٹھی میں مختلف قسم کے نگینے۔ ہم پُر امیدہیںکہ رنجور تلگامی اس طرح کی مزید کتابیں شائع کرواکے قارئین کو علوم و فیوض سے نوازتے رہیں گے۔
(رابطہ۔7006259067)
[email protected]