’’کلونیلزم /پوسٹ کلونیلزم‘‘کا اجمالی جائزہ تبصرہ

ڈاکٹر اشرف لون

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نام کتاب: کلونیلزم /پوسٹ کلونیلزم(انگریزی)

مصنف: آنیا لُومبا( پروفیسر ، کیلفورنیا یونیورسٹی)

صفحات :     263

پبلشر:    روٹلج

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پوسٹ کلونیلزم (مابعد استعماریت/ مابعد نوآبادیت) کا تصور ہمارے ذہنوں میںآتے ہی کلونیلزم (استعماریت یا نوآبادیت) کا تصور بھی ساتھ میں آتا ہے۔  کیوں کہ مابعدنوآبادیت، نوآبادیت کے بعد والا ہی ڈسکورس اور زمانہ ہے۔اس لیے مابعد نوآبادیت کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے  نوآبادیت یا نوآبادیاتی علوم کا مطالعہ ضروری بن جاتاہے۔ مابعد نوآبادیت کا ڈسکور س مابعد جدیدت کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ مابعد نوآبادیت کی تھیوری کو آگے بڑھانے والوں میں ایڈورڈ سعید، گیاتری سپاوک اور ہومی بابا  کے نام اہم ہیں۔ آنیالو مبانے اپنی کتاب ’’ نوآبادیت/مابعدنوآدیت‘‘  میں ان دانشوروں اور دوسرے بڑے مفکروں کی روشنی میں استعمارپسند یورپی قوتوں کا تجزیہ کیا ہے۔

کتاب کے پہلے باب میں آنیا لومبا نے نوآبادیت ا ور مابعدنوآبادیت کی وضاحت کی ہے اور تاریخ میں ان کے رول اور آج کے دور میں ان علوم کی اہمت پر زور دیا ہے۔ مصنفہ نے دکھایا ہے کہ کس طرح برطانوی حکومت اپنی ماقبل حکومتوں سے مختلف تھی اور کس طرح انہوں نے اپنے زیرنگین ملکوں کا استحصال کیا۔  لومباکے مطابق نوآبادیاتی طاقتوں نے اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے مختلف حربے اپنائے اور پھر ان چیزوں نے ہی جدید یورپی سرمایہ داری کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا۔اور دوسرے یہ کہ نوآبادیت کے بغیر یورپ میں سرمایہ دارانہ نظام پنپ نہ پاتا۔ مصنفہ ایک جگہ لینن کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ صنعتی انقلاب سے یورپ میں جو دولت جمع ہوئی تھی اس کو یورپی طاتوں نے اپنے زیرتحت علاقوں میںسرمایہ کاری کی، جس سے ان کی دولت میں زوز بروز اضافہ ہوتا رہا لیکن ان کے زیر نگین علاقے پستی کے دلدل میں چلے گئے۔ لومبانے ایک جگہ لکھا ہے کہ کوئی ملک ایک وقت میں آزاد بھی رہ سکتا ہے لیکن اسے ہم نیا نوآبادیاتی ملک بھی کہہ سکتے ہیں اگروہ ثقافتی اور اقتصادی طور پراب بھی کسی دوسرے ملک(امریکہ یا برطانیہ) منحصر رہتا ہو۔ اس سلسلے میں لومباکا مزید کہنا ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جو ملک آزاد ہوئے ہیں ان میں ابھی تک عورتوں ، کاشتکاروں اور مزدوروں اور دوسری ’ادنیٰ اور پچھڑی ذاتوں‘ کو پورے حقوق نہیں ملے ہیں جس کا انہوں نے خواب دیکھا تھا۔  اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں استعماریت کا سامنا ان ملکوں میں اب مقامی سطح پر بھی ہے اور’ اس لیے مابعد نوآبادیت کی اصطلاح کا اطلاق ہمیں کافی غورو فکر کے بعد کرنا ہوگا کیوں کہ یہ اصطلاح اپنے ساتھ کافی تضاد بھی لائی ہے  :

’’ نوآبادیت کو ہم صرف بیرونی ملک یا لوگوں سے وابستہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی صرف باہری طاقتوں کے اندرونیقوتوںکے ساتھ مل کل یہ انجام پاتی ہے بلکہ اس کا ایک مقامی رنگ بھی ہو سکتاہے۔اس طرح (آج)نوآبادیت کا اطلاق بے ربطی سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے اندر متعدد تضادات اور حدبندیاں ہیں۔‘‘   (ص  16)

ایڈورڈ سعید کے مطابق یورپی طاقتوں نے باضابطہ اپنے فائدے اور ایک مقصد کے لیے مشرقی اقوام کے متعلق علوم کو اکٹھا کیا اور ان علوم میں انہوں نے دوسرے شعبے عمرانیات ،تاریخ اور فلسفے کو ملایا۔ ان مستشرقوں نے اپنے زیر نگیں علاقوں پر قبضہ جمانے میںیورپی طاقتوں کی مددکی اور یہ کہ مشرق اور مغرب کے بیچ تفرقہ پیدا کرنے میں مستشرقوں نے اہم رول ادا کیا۔  آنیا لومبا نے اپنی کتاب میں سعید کی تھیوری سے پوری بحث کی ہے اور مثالوں سے واضح بھی کیا ہے۔ایڈورڈ سعید کے مطابق مستشرقوں کا مشرق کو سمجھنے کا طریقہ متعصب تھا اور ان کا مطالعہ حقیقی نہیں بلکہ ’’ ایک سیاسی نقطہ نظر نے معروف قوم(یورپ، مغرب) اور اجنبی(مشرقی)۔جب کوئی مشرقی اور مغربی پیمانوں پر کسی چیز کی تحقیق اور عوامی پالیسی میں اس کو اپناتا ہے تو اس کو نتیجہ یقینی دوریوں کو بڑھاتا ہے۔اسطرح مشرقی زیادہ مشرقی اور مغربی زیادہ مغربی بن جاتا ہے۔۔۔اور یہ مختلف ثقافتوں ، سماجوں اورخیالات کے آپسی میل جول پر روک لگا دیتا ہے۔‘‘(ص43-44)

مصنف کے مطابق نو آبادیت نے یورپیوں اور غیر یورپیوں کے بیچ تعلقات کو مزید توسیع دی جس سے ان دونوں کو ایک دوسرے کو جاننے کا زیادہ موقع ملا حالانکہ استعماری قوتوںنے غیر یورپیوں کو ایک مخصوص عینک سے دیکھا۔اور مشتشرقیوں کے غیر یورپیوں کو ادنیٰ درجے کا قرار دینے نے نوآبادیاتی نظام کو ان مشرقی قوموں میں قائم رکھنے کا جواز مہیا کیا۔ اور ساتھ ہی ادبی علوم نے مقامی لوگوں میں مغربی اقدار کو بڑھاوا دینے اور یورپی ثقافت کو برتر قرار دینے نے یہاں یورپی استعماریت کو دوام عطا کیا۔  اس سلسلے میں مصنفہ نے کچھ ادبی دستاویزات کا جائزہ بھی لیا ہے اور دکھایا ہے کہ کس طرح مستشرقیوں نے یہ کام انجام دیا۔ اس سلسلے میں انہوں ایڈورڈ سعید، گوری وشوناتھن،آلتھیوزر اور دوسرے مفکرین کی آراء بھی پیش کی ہیں۔ آلتھیوزر کے مطابق تعلیمی نظام غالب نظریوں کو حاوی ہونے میں اہم رول ادا کرتی ہے۔مصنفہ ڈکلان کبارڈ کے حوالے سے لکھتی ہیںکہ ترجمہ کا بنیادی معنی ’’فتح کرنا‘‘ تھا اور اس سلسلے میں مزید لکھتی ہیں: ’’ یہ استعماری قوتوں کا  ایک اہم قدم ہے غیر یورپیوں کی درجہ بندی کرنے،محفوظ کرنے ،اور پیش کرنے کی کوشش ہے۔تاکہ وہ پھر انہیں آسانی سے سامراجی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے۔‘‘  (ص88)

کتاب کے دوسرے باب میں مصنفہ نے یورپی نسل پرستی اور نسلی تصادم کے بارے میں بڑی جاندار بحث کی ہے اور ساتھ ہی اس کی مختصر تاریخ بھی بیان کی ہے کہ نسل پرستی کی بنیای وجوہات کیا ہیں اور اس کا آغاز کہاں سے ہوا ۔اس سلسلے میں انہوں نے عیسائیوں کے مذہبی افکار کا مطالعہ پیش کیا ہے جو بعد میں نسل پرستی کی بنیاد بن گیا:

’’(مگر) جیسا کہ انجیل کے مطابق انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان کے والدین ایک ہی ہیں، دیو ئو اور وحشیوںکا تعین کرنا مشکل تھا۔ایک ردعمل اس کا یہ تھا کہ ان صفات کو ان کے ساتھ وابستہ کیا جائے جن پر خداقہر اترا تھااور اس طرح انجیل کے سیاہ فامی صفت نوح کے نالائق بیٹے حام کی نسل(افریکی اور ایشیائی) سے وابستہ کرکے اور شیطانی طاقتوں کے ساتھ وابستہ کیا۔‘‘(ص92)

اس طرح نسلی منافرت سے وابستہ خصوصیات جیسے سستی، جارحیت،لالچ،تشدد،درندگی وغیرہ فرانسسیوں، اسپینیوں، پرتگالیوں ، برطانوی طاقتوں نے ایشیائی اور افریقی قوموں سے وابستی کی ہیں۔ مصنفہ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں سفری دستاویزات کو پیش کیا ہے جن میں Principall Navigations اور Hakluytus Posthumus قابل ذکر ہیں۔ مصنفہ نے فرانز فینن کے حوالے سے یورپ کی نسل پرستی پر روشنی ڈالی ہے کہ کس طرح یورپی اقوام ، مشرقی اقوام کے عوام کو نصف انسان کا درجہ دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ یہ نو آبادکاری ہی ہے جس نے نو آبادیاتی تشخص کو پورا بگاڑ دیا  اور دنیا یا یورپ کے سامنے اس کی بالکل ایک نئی  اور غیر حقیقی تعبیر پیش کی جس  میں یورپی اقوام کے اپنے مفادات چھپے ہوئے تھے۔

نوآبادیت نے جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے زمینی حقائق ،سماجی اور انسانی رشتوں اور تشخص کو بدل کے رکھ دیا ہے ۔مصنفہ نے کتاب کے تیسرے باب میں ان ہی جیسے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ مصنفہ کے مطابق نوآباد یت نے ذہنی سطح پر بھی اپنی نو آبادیوں کو متاثر کیا اور ان میں احساس کمتری پیدا کیا۔  ان کا ماننا ہے کہ قومیت کا نظریہ نو آبادیت کا مقابلہ کرنے میں بہت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔اس دوران میں انہوں نے مختلف مفکرین اور دانشوروں کے خیالات کی روشنی میں قومیت (Nationalism)  کی تشریح کی ہے۔ فرانز فینن کے حوالے سے لومبا نے لکھا ہے کہ وہ نیگرو تحریک اور اس سے وابستہ ادب کے نکتہ چین تھے کہ یہ تشدد آمیز ،بلند آہنگ اور چمکیلا ہے جس سے قابض قوتوں کو اور شہہ ملتی تھی، کیوں کہ اس کی زبان اسی مقبوضہ سماج سے لی جاتی تھی حالانکہ یہ لکھنے والے مقامی اور نوآباد سماج کے کٹر مخالف تھے۔  اس کے برعکس وہ قومی ادب کی تخلیق پر زیادہ زور دیتاہے ،ایسے مزاحمتی ادب  پرجس کو عوام آسانی سے سمجھے اور جس میں قومی شعو ر ہو اور جو قومی آزادی کے لیے وقف ہو۔

اس کے بعد لومبا قوموں کی تحریک آزادی میں عورتوں کے رول کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور تانیثیت کو قومیت اور مابعد نوآبادیات کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ مصنفہ کا ماننا ہے کہ قومی تحریکوں میں عورتوں کے رول کو جس طرح سراہنا چاہیے تھا ،اُس طرح سراہا نہیں گیا۔لیکن وہیں وہ یہ بھی مانتی ہیں کہ مابعد نوبادیاتی ملکوں میں عورتوں کو دن بہ دن زیادہ حقوق مل رہے ہیں ،شائد اس وجہ سے کہ انہوں نے قومی تحریک میںاہم رول ادا کیا تھا۔ مصنفہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ مسلم ملکوں میں عورتوں کو اب بھی زیادتیوں کو سامنا ہے لیکن وہ اپنے ہی ملک بھارت کو بھول گئی ہے،جہاںآج بھی عورتوں کے ساتھ دل دہلانے والے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔جہیز ،Honour Killing دلت لڑکیوں کی عصمت دری جیسے مظام کو  روکنے میں ہندوستانی حکومت آج بھی ناکام دکھائی دیتی ہے۔

مصنفہ کے مطابق 11ستمبر 2011 کے حادثے کے بعد اور نام نہاد دہشت گردی مخالف جنگ اور عراق اور افغانستان پر امریکی حملوں کے بعد آج مابعد نوآبادیاتی نظریات اور علوم پر پہلے سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کی آج دنیا کے سامنے سب سے بڑا خطرہ امریکی سامراجیت کا ہے ۔ ایسے میں مابعد نوآبادیت اور استعماریت مخالف علوم کی اہمیت بڑھ گئی  ہے  ۔امریکی سامراج کا اثرآج ہر ملک کی ثقافت ،تہذیب، قومی تشخص پر بڑھتا جارہا ہے۔  اس تناظر میں مصنفہ نے مائکل ہارڈت اور آنٹونیو نیگری کے نظریہ کو بنیاد بنا کر لکھا ہے کہ پرانی سامراجی طاقتوں میں آپس میں دوسرے ممالک پر قبضے کرنے کے لیے مخاصمت رہتی تھی لیکن آج امریکہ کو کسی کی مخالفت یا مخاصمت کی فکر نہیں اور آج کی امریکی سلطنت ،رومی سلطنت سے ملتی جلتی ہے جس نے براہ راست نہیں بلکہ بلا واسطہ طور پر پوری دنیا پر اپنا کنٹرول کر رکھا ہے۔ یہاں مصنفہ اقوام متحدہ کے امریکی جارحیت میں رول پر بحث نہیں کی ہے جو ہمیشہ دوسرے غریب ملکوں امریکی حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے، اور دنیا میں آج اس انجمن کی وقعت امریکہ کا ساتھی ہونے سے کچھ زیادہ نہیں۔

آنیا لومبا کی اس کتاب کی اہمیت اس وجہ سے بہت زیادہ ہے کہ انہوں نے دنیا کے تقریباََ تما م مابعد جدید اور مابعد نوآبادیاتی مفکروں کے نظریات کی روشنی میں اپنی آراء قائم کی ہیں اور پھر نتائج اخذ کیے ہیں۔ مصنفہ کی متعدد آراء سے اختلاف کی گنجائش ہے لیکن اس سے کتاب کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ کتاب کی زبان سادہ و سہل ہے جس سے مصنفہ کا خیال آئینے کی طرح واضح ہوجاتا ہے۔ نوآبادیت اور ما بعد نوآبادیت کو سمجھنے کے لیے  اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔

(جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی )

[email protected]>