ژالہ باری کی تباہ کاریاں میوہ صنعت کو ہوئے نقصان کی بھرپائی کو ن کریگا؟

جنوبی کشمیر کے شوپیاں ،کولگام اور اننت ناگ اضلاع میںحالیہ ژالہ باری کے نتیجہ میں میوہ باغات میں مچی تباہی کے بعد کل سہ پہر کو شمالی کشمیر کے کپوارہ اور بارہمولہ اضلاع میں شدید نوعیت کی ژالہ باری ہوئی جس نے ان دونوں اضلاع کے میوہ باغات اور کھڑی فصلوں و سبزیوں کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردیا ہے۔گوکہ محکمہ باغبانی نے ابتدائی تخمینوں کے مطابق جنوبی کشمیر کے تینوں اضلاع میں میوہ کو اوسطاً20سے25فیصدی نقصان پہنچنے کا دعویٰ کیاتھا تاہم اگر عوام کی مانیں تو نقصان اس سے کہیں زیادہ تھا اور نقصانات کا جو سروے کیا گیا تھا،وہ زمینی صورتحال سے بالکل ہی میل نہیں کھاتا ہے ۔گوکہ محکمہ باغبانی نے بھی نقصانات کے تخمینہ کو عبور ی قرار دیا تھا اور کہاتھا کہ حتمی تخمینہ لگانا ابھی باقی ہے تاہم آج تک اس ژالہ باری کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی کے حتمی تخمینہ سے متعلق اعدادوشمار سانجھا نہیں کئے گئے ہیں اور جب کوئی حتمی اور ٹھوس اعدادوشمار ہی نہ ہوں تو متاثرہ کسانوںکا کچھ بھلا نہیں ہونے والا ہے ۔

 

 

 

ابھی ہم اُسی ژالہ باری سے متاثرہ کسانوں کی بے بسی کا رونا رورہے تھے کہ کل یعنی جمعرات کی سہ پہر کو انتہائی شدید نوعیت کی ژالہ باری نے شمالی کشمیر میںمیوہ باغات کو تاراج کرکے رکھ دیا۔ژالہ باری اس قدر شدید تھی کہ کم و بیش سارہ میوہ درختوں سے گر گیا اور جو میوہ درختوںپر بچا ،وہ کسی لائق نہیں رہا ہے۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے جب کسان نقصانات سے دوچار ہوئے ہوں بلکہ اب تقریباً ہر سال کسان ایسی آفات سے متاثر ہوتے ہیںاورہر انہیں خون کے آنسو رونے کیلئے چھوڑ دیاجاتا ہے ۔ ایک طرف جامع زرعی ترقیاتی پروگرام کے تحت زراعت وباغبانی کے سبھی شعبوں کو فروغ دینے کی باتیں کی جارہی ہیں اور اس پروگرام کے تحت زر کثیر خرچ کیاجارہا ہے تو دوسری جانب کسان مسلسل پریشان ہے ۔محکمہ زرعی پیداوار جن چیزوںکا کریڈٹ لے رہا ہے ،وہ دراصل اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے ۔اگر کشمیر میں زرعی پیداوار یا باغبانی پیداوارمیں اضافہ ہوا ہے تو وہ متعلقہ محکموںکا مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کیلئے خو د کسانوںنے دن رات محنت کی ہے۔اگر متعلقہ محکمہ کو کسانوں کی اتنی ہی فکر ہے تو کیوں ترجیحی بنیادوںپر کسانوںکو انشورنس کے زمرے میں نہیں لایا جارہا ہے حالانکہ اس کیلئے باضابطہ سکیم موجود ہے اور اس سکیم کی عمل آوری کیلئے گاہے بگاہے میٹنگیں بھی ہوتی رہتی ہیں تاہم عملی صورتحال یہ ہے کہ یہ سکیم بیشتر معاملا ت میں کاغذات تک ہی محدود ہے اور عام کسانوںکو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے ۔

 

 

 

محکمہ باغبانی کو بالعموم اور یوٹی حکومت کو بالخصوص اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ باغبانی شعبہ سے جڑے کسان دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں کیونکہ بمپر پیداوار ہونے کے باوجود وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے منڈیوں میں میوہ کے مسلسل گرتے دام ہیں۔جب ایک باغ مالک کو میوہ فصل پر لگی لاگت کے پیسے بھی نہ ملیں تو وہ اپنے باغ کو فروغ دینے کے جتن کیوں کرے؟۔مشاہدے میں آیا ہے کہ اب کئی سال سے باہر سے میوہ خاص کر سیب یہاں لایاجاتا ہے جو بازار میں کشمیری سیب سے کم قیمت میں دستیاب ہے اور نتیجہ کے طور پر کشمیری سیب منڈیوں میں سڑنے کیلئے رہ جاتا ہے اور کوئی خریدار نہیں ملتا ہے ۔تاہم اب یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اس سال مرکزی حکومت نے کشمیری میو ہ صنعت کو تباہی سے بچانے کیلئے بیرونی ممالک سے ایسے سیب امپورٹ کرنے پر پابندی عائد کی ہے جس کی قیمت ،انشورنس اور فریٹ قیمت فی کلو گرام پچاس روپے سے کم ہو۔اس فیصلہ کا باغ مالکان نے خیر مقدم کیا ہے کیونکہ باہر سے لائے جارہے میوہ نے کشمیری میوہ صنعت کی کمر توڑ کررکھ دی تھی ۔ہمیں یاد ہوگاکہ گزشتہ چند ایک برسوں سے ایرانی سیب بھارتی منڈیوں تک افغانستان کے راستے پہنچتا تھا اور وہ ڈیوٹی فری یعنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا تھا جس کے نتیجہ میںوہ سیب انتہائی کم لاگت پر یہاں پہنچتا تھا اور پھر انتہائی کم قیمت پر بازار میں دستیاب بھی ہوتا تھا جس کی وجہ سے کشمیری سیب کی پھر مانگ نہیں رہتی تھی اور کشمیری میوہ سڑتا رہتا تھا تاہم اب شاید ایسا نہیں ہوگا اور کشمیری سیب اچھے داموں منڈیوں اور مارکیٹ میں فروخت ہوگا۔اس کے علاوہ ٹرانسپورٹیشن کا مسئلہ جوں کا توںہے ۔

 

 

 

ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ قدرتی آفات کی مار سے دوچار میوہ کسانوںکو دوسری مار سرینگر قومی شاہراہ پر میوہ سیزن کے دوران غیر ضروری طور پر میوہ سے لدھی مال بردار گاڑیوںکو روکنے کی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں میوہ گاڑیوں میں ہی سڑجاتا ہے اور جب یہ میوہ منڈیوں میں پہنچتا تو اس کی حالت غیر ہوچکی ہوتی ہے ۔تاہم اس بار امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا اور میوہ کو بروقت ملکی منڈیوں تک رسائی دینے کیلئے قومی شاہراہ پر ایک گرین کاریڈور بنایا جائے گا تاکہ میوہ ترجیحی بنیادوںپر شاہراہ کے بانہال سے لیکر ادھم پور تک کے سٹریچ کو بنا کسی رکاوٹ کے عبور کرسکے جس کے نتیجہ میں میوہ خراب ہوئے بغیر منڈیوں تک یقینی طور پہنچ جائے گا اور جب میوہ تازہ دم ہوگا تو دام اچھے ملنا طے ہے ۔سرکار کو چاہئے کہ اگر وہ قدرتی آفات سے متاثرہ میوہ باغ مالکان کے نقصانات کی بھرپائی نہیں کرسکتی ہے تو کم از کم اس بات کو یقینی بنائے کہ بچا کھچا میوہ سیزن میں بروقت مارکیٹ تک پہنچ جائے اور اس کو اچھے دام بھی ملیں۔اس سمت میں کوششیں ہورہی ہیں۔ کم قیمتوں والے سیب کے امپورٹ پر پابندی اور چیف سیکریٹری کی جانب سے حالیہ دنوں قومی شاہراہ پر ٹرکوں کو قاضی گنڈ اور ادھم پور کے دوران قطعی طور نہ روکنے کی ہدایات صحیح سمت میں اٹھائے جانے والے صحیح اقدامات ہیں تاہم ان پر مسلسل عمل ناگزیر ہے ۔