بجلی کا بحران کب ختم ہوگا؟

حکمرانوں کی ناہلی سےوادیٔ کشمیر میں جہاں حسبِ روایت موسم سرمامیں بجلی سپلائی کی نایابی اورآنکھ مچولی کا سلسلہ کئی دہائیوںسے چلا آرہا تھا وہیں موسم گرما کے آتے ہی یہ سلسلہ ختم ہوجاتا ۔بجلی سپلائی مناسب ڈھنگ سے صارفین کو مل جاتی اور آنکھ مچولی تھم جاتی تھی۔لیکن پچھلے چار پانچ سال کے دوران اپنی اس دادی میںیہاں کی حکومت اور محکمہ پاور ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے صارفین بجلی پر حصولِ بجلی کے لئے جو قواعد و ضوابط نافذکردئیے گئے اور بجلی فیس میں اضافے دَر اضافے کر کے جو دعوے اوروعدے کئے گئے،وہ نہ صرف تعجب خیز بلکہ مضحکہ خیز بھی ثابت ہوئےہیں۔قطع نظر اس کے کہ چار پانچ سال قبل جن صارفین بجلی سے ماہانہ تین چار سو روپے بطور فیس حاصل کی جاتی تھی ،اُن سے آج پندرہ سے اٹھارہ سو روپے حاصل کئے جاتے ہیں ، اس کے باوجود اُنہیں مناسب طریقے پر بجلی فراہم نہیں کی جارہی ہے اور جو شیڈول محکمہ بجلی کی طرف سے جاری کیا گیا ہے،اُس کے مطابق بھی اُنہیںبجلی فراہم نہیں کی جاتی ہے۔حالانکہ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاںہے کہ موجودہ جدید دور میں بجلی انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے ،جس سے اب کسی بھی انسان کو چھٹکاراحاصل نہیں ہے۔روز مرہ زندگی میں صبح سے شام تک جتنی بھی چیزیں عام طور استعمال میں آتی ہیں،تقریباً ساری چیزیں بجلیوں ہی سے چلتی ہیں۔ اگر ہم  اپنے ملک کی چندریاستوں پر ہی نظر ڈالیں تو اگر وہاں دس پندرہ منٹ کے لئے بجلی چلی جاتی ہے تو ہاہا کار مچ جاتی ہے اور اگر کچھ گھنٹوں کے لئے بجلی گُل ہوجائے تو قیامت ِصغریٰ برپا ہوجاتی ہے اورزندگی تھم سی جاتی ہے، گویا ان ریاستوں میں بجلی ہی انسانی زندگی کے لئے ہر موڑ پر راحت کا سامان فراہم کرتی ہے۔لیکن ہمارے یہاں، بجلی کی عدم موجودگی میں زندگی مُرجھا بھی جائےاور نظامِ زندگی کاتقریباً ہر شعبہ متاثر ہوجائےتو اس کی کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔چنانچہ گذشتہ سال سے تا ایں دَم بجلی کی نرخوں اضافے ،بجلی چوری کے خلاف دن ورات کی کاروائیوں،چھاپوں ،جرمانوں اور میٹروں کی تنصیب کے باوجود بجلی سپلائی میں کسی طرح کی کوئی بہتری نہیں لائی گئی ہے۔کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے مطابق بجلی کی کھپت اور طلب کے درمیان ابھی بھی پانچ سو میگاواٹ کی کمی ہے ،جس کا سارا خمیازہ یہاں کے صارفین بجلی کو بھگتنا پڑتا ہے۔بچوں کی تعلیم متاثر ہورہی ہے،کاروبار پر بُرا اثر پڑرہا ہے،عام لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہورہا ہے اوربجلی کی نایابی سے پینے کے پانی کا بھی مسئلہ پیدا ہورہا ہے، لیکن حکو مت ٹَس سے مَس نہیں ہورہی ہے۔جس کے نتیجے میں جہاں وادی کے مختلف اضلاع کے بیشتر علاقے اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں وہیں غیر میٹر شدہ علاقوں کے لئے بجلی شیڈول کی کوئی اہمیت ہی  نہیں رہی ہے۔کب بجلی آئے اور کب چلی جائے،متعلقہ محکمہ کے اہلکاروں کی مرضی پر ہی منحصر ہے۔جس سے یہ بات اُبھر کر سامنے آجاتی ہے کہ حکومت اور محکمہ بجلی کے تمام  وعدے اور دعوے محض کاغذوں تک ہی محدود ہوتے ہیں۔حالانکہ وادی کے عوام نے موجودہ یو ٹی سرکار سے کافی اُمیدیں وابستہ کررکھی تھیں اوریو ٹی سرکار نے بھی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اُن کے بنیادی مسائل دور کرنے میں ہر ممکن کوشش کرے گی۔لیکن افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ یو ٹی سرکار بھی اپنے وعدوں کا وفا نہ کرسکی اور نہ ہی یہاں کے سرکاری انتظامیہ میں شامل بڑے بڑے افسروں کی غلط پالیسیوں کورپشن اور تساہل پسندی میںکوئی تبدیلی لاسکی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ کو جہاں بجلی کی فراہمی کے مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے، وہیں پانی کی نایابی کے مسئلے پر بھی متوجہ ہونا چاہئےتاکہ یہاں کے عوام کو بنیادی ضرورتوں کی حصولیابی کے لئے مزید تڑپنا اور ترسنانہ پڑے۔اُسے اس بات کا بھی احساس ہونا چاہئے کہ یہاں کے عوام کی زندگی کو پہلے ہی بے روزگاری،اقتصادی بد حالی ،مہنگائی ، غیر معیاری خوردونوش اور جعلی ادویات نے اجیرن بناکے رکھاہے جبکہ محدود آمدن والے عام آدمی کے لئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ہزاروں جتن کرنے پڑتے ہیں۔