مسائل و مصائب کا ذمہ دار خود انسان ہے

یہ بات عیاں ہے کہ اب موسمی تغیرات نے دنیائے عالم کو پریشان کردیا ہےاور مصائب میں اضافہ ہورہا ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک میں بھی جہاںگرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے وہیں شدید برفباری بھی ہورہی ہے،کئی ممالک میں بارشوں کی کمی سےہر سال خشک سالی بڑھ رہی ہے اور درجہ حرارت بڑھ جانے سے معمولات زندگی درہم برہم ہورہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں خاص طور پر بھارت اور پاکستان کو زبردست بارشوں سے شدید نقصانات برداشت کرناپڑ رہاہے۔سیلابی ریلوں سےمختلف علاقوںمیں کھڑی فصلوں، گھروں اور پلوں کو زبردست نقصان پہنچتا ہے، پلوں کے ٹوٹنے اور سڑکوں کے بہہ جانے سے بعض صوبوں کا باقی ملک سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے،بے شمار مال ومویشی سیلابی ریلوں میں بہہ جاتے ہیں۔

گویا یہ سب کچھ موسمی تبدیلی اور زمینی حرارت میں اضافے کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے ساٹھ کی دہائی میں، اُس وقت آوازیں اُٹھنی شروع ہوئی تھیں، جب اس حوالے سے عام لوگوں کو بہت کم آگہی حاصل تھی، کیونکہ سرد جنگ عروج پر تھی، سوویت یونین، امریکہ، فرانس اور برطانیہ نے زیرزمین اور زیرِ سمندر جوہری تجربات کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، ایسے میں اُس دور میں بیشتر امن پسند غیرسرکاری تنظیمیں آوازیں اُٹھا رہی تھیں اورپے دَر پے جوہری تجربات کو عالمی امن اور قدرتی ماحول کے لئے زبردست خطرہ قرار دے رہی تھیں، پھرگلوبل کولنگ اور گلوبل وارمنگ کے حوالے سے قریباً تیس سال قبل بیشتر سائنس دانوں اور ماہرین نے بھی آواز یں بلند کر دیں۔ شمالی یورپ، امریکہ اور بحر اوقیانوس شمالی میں برفانی طوفان، آندھیاں اور برفباری میں اضافہ کی وجہ سے ہر طرف سے شور اُٹھنے لگا اور معروف سائنسی جریدوں اور تحقیقی مضامین میں وارمنگ کے ساتھ ساتھ کولنگ کے حوالے سے تواتر کے ساتھ علمی اور سائنسی مواد شائع ہو نے کا سلسلہ جاری رہا،جس کے نتیجے میں ماحولیات کے حوالے سے دنیا بھرکی قریباً ساڑھے تین سو سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں نےگرین ہائوس مہلک گیسوں، جنگلی حیاتیات کے تحفظ، جنگلوں کی دیکھ بھال، شجرکاری کے فروغ اور عوام میں قدرتی ماحول کے تحفظ کے حوالے سےآگہی پر کام کرنا جاری رکھا۔ جبکہ اقوام متحدہ کی ماحولیات کی تنظیم کا زیادہ زور شجرکاری کے فروغ پر رہا ، جس کے نمایاں اَثرات واضح ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تنظیمیں غربت، پسماندگی، ناخواندگی کو بھی قدرتی ماحول میں بگاڑ کا ذمہ دار قرار دیتی چلی آرہی ہیں۔

اب سائنس داں اور ماہرین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ کرّۂ اَرض کو گلوبل وارمنگ سے جو خطرہ لاحق ہے وہی خطرہ گلوبل کولنگ سے بھی لاحق ہے گویا وارمنگ اور کولنگ دونوں ہی زمینی آب و ہوا اور موسمی بگاڑ میں برابر کے شریک ہیں۔ دُوسرے لفظوں میں اب صرف گلوبل وارمنگ کے بارے میں ہی نہیں بلکہ کولنگ کے حوالے سے بھی بہت سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔موسمی تغیّرات کے حوالے سے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس سے ترقّی پذیر اور پسماندہ ممالک کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ قحط، خشک سالی، جنگیں ،آبادی کا انخلاء اور وبائی امراض پھیلنے کا شدید خدشہ ہے۔ اس لئے موسمی تغیّرات اور کرّۂ اَرض کے تحفظ کے لئے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ ماہرین نے گلوبل کولنگ کے حوالے سے جو انکشافات کئے تھے ،اب وہ بھی دُرست ثابت ہو رہے ہیں۔ تاہم سائنس دانوں کا متواتر یہ انتباہ رہا ہے کہ انسان نے اپنی ترقّی، آسائشات اور جدید طرزِ حیات کے لئے سب کچھ دائو پر لگا دیا ہے۔ ماہرین اور سائنس دانوں نے بار بار یہ بات دُہرائی ہے کہ پلاسٹک کا بڑھتاہوا استعمال کوڑا کرکٹ میں کئی گنا اضافہ کر رہا ہے جو زیادہ تر سمندر برد کیا جا رہا ہے جس سے آبی حیاتیات کو شدید خطرات لاحق ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ یا گلوبل کولنگ کے جو منفی اثرات دُنیا کے مختلف خطّوں پر پڑ رہے ہیں ، اُس کے باعث دُنیا میں کئی جگہ قحط پڑنے، غذائی قلّت پیدا ہونے کی وجہ سے لاکھوں باشندے نقل مکانی کرتے چلے آ رہے ہیںاور اس عرصے میں مختلف ممالک باہمی کشیدگی اورآپس میں جنگ و جدل میں مصروف عمل رہے ہیں،جبکہ موجودہ دور میںبھی مختلف ملکوں میں باہمی چپقلش،کشیدگی ،رسہ کشی اور جنگ و جدل کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں بڑے پیمانے پر مہلک گولہ بارود کا استعما ل ہورہا ہے وہیں نئے نئے انسان دشمن مہلک ہتھیاروں کے تجربات بھی ہورہے ہیں ،جن سے برّی،بحری و فضائی ماحول مزید ابتر ہورہا ہے،جو کہ بہر صورت عالمِ انسانیت کے لئے ہی نہیں بلکہ دوسرے مخلوقات کے لئے تباہ کُن بنتا جارہا ہے۔ ان سب مسائل و مصائب کا ذمہ دار خود انسان ہی ہےاور بالآخر انسان کو ہی ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا،ورنہ آنے والے وقت میںانتہائی خوفناک وتباہ کُن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔