اصولِ فطرت سے متصادم ہونا نقصان دہ

دینی تعلیمات اور جدید علمی تحقیقات کی روشنی میں فطرت کے ساتھ ہم آہنگ رہنے کی جو اہمیت اور افادیت بیان ہوئی ہے اس کی رُو سے جب ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نہ صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر فطرت کے اُصولوں سے متصادم ہیں ۔ گرد و پیش کے ماحول کے بارے میں فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ اسے صاف رکھا جائے اور اس میں پیدا ہونے والے بگاڑ کو روکا جائے۔لیکن ہم محض اپنے ارد گرد کے ماحول پر بھی نظر ڈالنے کی زحمت گوارا نہیں کرتےہیں۔ ہم جہاں رہتے ہیں، وہاں کے چیزوں کے مجموعے کا نام ہی ماحول ہے۔ ہمارے گھر،آنگن،گلی کوچے،سڑکیں، ندی نالے، دریا، کھیت، پہاڑ، فضا وغیرہ، یہ سب چیزیں مل کر ماحول تشکیل دیتی ہیں۔ اس ماحول میں جب کوئی خرابی آ جائے تو اُسے آلودگی کا نام دیتے ہیں۔جبکہ اس آلودگی سے محفوظ رہنا ہمارے لئے بے حد ضروری ہے۔کیونکہ ایک صحت مند ماحول ہی میں صحت مند معاشرہ فروغ پا سکتا ہے۔ ماحولیاتی صفائی کا اسلامی تصور اس لحاظ سے دیگر تصورات سے مختلف ہے کہ اس تصور میں ہماری زندگی کے تمام اجزاء شامل ہیں۔ یہ صرف عبادات کے لئے وضو اور غسل تک محدود نہیں ہے بلکہ ہماری زندگی کے تمام معمولات کا احاطہ کرتا ہے۔ پانچوں نمازوں سے قبل طہارت کا اہتمام اس لئے ضروری قرار دیا گیاہے تاکہ انسان پاکیزگی کی طرف بڑھتا چلا جائے۔مگر جب ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالتے ہیں توزیادہ تر صفائی اور پاکیزگی کا فقدان نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمیں زمینی آلودگی اور فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ظاہر ہے کہ ماحول میں بگاڑ آلودگی کا سبب ہے، اس لئے آج کے دور میں حفظانِ صحت و ماحولیاتی تحفظ کے لئے شجرکاری ضروری بن گئی ہے۔ اگر ہم ماحول کو صاف و پاک رکھنے کے لئے درخت لگائیں تو اس سے محض ہمیں ہی نہیں بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔چنانچہ موجودہ سائنس شجرکاری کی جس اہمیت و افادیت کی تحقیق کر رہی ہے، اُس سے ہمیںقرآن و احادیث نے چودہ سو سال قبل ہی آگاہ کر دیا تھا۔ قرآن کریم میں مختلف حوالے سے شجر (درخت) کا ذکر آیا ہے،جبکہ احادیث میں بھی شجرکاری کے حوالے سے صریح ہدایات موجود ہیں۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں شجرکاری کو صدقہ قرار دیتے ہوئے ہمارے پیارے نبی ؐ نے فرمایا ہے کہ جو انسان درخت لگائے یا کھیتی باڑی کرے اور اس میں پرندے، انسان اور جانور کھا لیں تو وہ اس کے لئے صدقہ ہے۔یہی وجہ ہے ہمارے اسلاف اور بزرگان ِ دین نے اپنے ادوار میںباغبانی اور شجرکاری میں گہری دلچسپی لے لی تھی اور صدقہ کی نیت سے درخت لگانے کا اہتمام کیا تھا۔ بے شک ہمارا دین صفائی ستھرائی اور نظافت پر زور دیتا ہے تاکہ نجاست اور گندگی کے سبب ماحول آلودہ ہونے سے محفوظ رہےاور آب و ہوا صاف رہے۔ آلودگی چاہے فضائی ہو یا زمینی، انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر ہے۔ ماحولیاتی آلودگی سے تحفظ کا ایک ذریعہ شجرکاری ہے،جوماحول کو خوبصورت اور دلکش بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ قدرت کا نظام ہے کہ اس کائنات میں جہاں ماحول کو آلودہ کرنے والے قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں، وہیں ماحولیاتی کثافت کو جذب کرنے والے ذرائع بھی موجودہیں، اس کی بہترین مثال درخت ہیں۔ اگر ہم اطمینان چاہتے ہیں تو پودے اور درخت لگا کر صدقہ جاریہ کا اہتمام کریں۔ شجرکاری کے ساتھ جڑے معیشت اور خوشحالی کے گہرے تعلق کو سمجھیں،جن میں حسنِ فطرت کی رعنائیاں اور دلکش مناظر بھی شامل ہیںجو ہماری آنکھوںکو ٹھنڈک اور دل کو سکون فراہم کرکے ہمیں صحت مند رکھتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ موقع غنیمت ہے کہ ہم اپنی نیکیوں میں اضافہ کریں، اپنے ماحول کو خوش گوار بنائیں،اپنا معاشرتی فریضہ نبھائیں۔نہ صرف خود پودے لگائیں بلکہ دوسروں کو بھی پودے لگانے کی ترغیب کریں اور ساتھ ہی اُن کی نگہداشت کرکےاُنہیں محفوظ رکھیں۔اسی سے ہماری وادی سر سبز شاداب ہوگی،فضا آلودگی پاک ہو گی اور صحت مند معاشرے کا قیام ہوگا۔