ڈیجیٹل تعلیم۔لڑکیاں نئی راہ ہموار کر رہی ہیں رفتارِ زمانہ

نیراج گجر،اجمیر

اکیسویں صدی کے دور کو ڈیجیٹل دور کہا جائے تو غلط نہیں ہے۔ اس نے نہ صرف سماجی قدامت پسند روایات کو چیلنج کیا ہے بلکہ ڈیجیٹل تعلیم کے ذریعے ترقی کی نئی راہیں بھی کھولی ہیں۔ اس نے سائنسی منطق کے نئے تصورات کو بھی جنم دیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس دور نے کام کی بنیاد پر مرد اور عورت کے درمیان فرق کی سوچ کو ختم کرنے کا قدم اٹھایا ہے۔ جہاں تکنیکی بنیادوں پر کام کے لیے مردوں کو ہمیشہ قابل سمجھا جاتا تھاوہاں اس فیلڈ میں اب لڑکیاں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ خاص طور پر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کا کردار اہم ہوتا جا رہا ہے۔ دیہی علاقوںکی رہنے والی لڑکیاں بھی نہ صرف اس میں ماہر ہو چکی ہیں بلکہ اب وہ اپنی جیسی بہت سی لڑکیوں کے لیے تحریک کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں۔
اِنہی لڑکیوں میں سے ایک میری ؔسدومہ ہے۔ چھوٹے قد کی یہ نوجوان لڑکی آج ایک ٹیکنیکل ایجوکیٹر ہے۔ جس نے ڈیجیٹل تعلیم کے ذریعے نہ صرف اپنی زندگی میں تبدیلی لائی ہے بلکہ بہت سی دیگر نوعمر لڑکیوں کو بھی ڈیجیٹل طور پر حقوق نسواں کے نقطہ نظر سے تعلیم دینے میں مصروف ہے۔ چھتیس گڑھ کے بلاس پور ضلع میں واقع دنیاری گاؤں کی رہنے والی میریؔ بتاتی ہیں کہ’’اس کے گاؤں میں ڈیجیٹل تعلیم کی بات تو دور،لڑکیوں کو عام تعلیم حاصل کرنے کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ والدین اور معاشرے کو لگتا ہے کہ لڑکیوں کے لیے ان کا واحد فرض ان کی جلد شادی کرناہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ’’دوسری لڑکیوں کی طرح ایک دن مجھ پر بھی شادی کا دباؤ آیا۔کچھ دنوں تک رونے کے بعد میں نے اپنے دل کی بات سنی اور ہمت کر کے اجمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک انجانے ماحول میں اپنی خالہ کے گھر پہنچ گئی۔ چند دنوں میں ہی میرے اندر بہتر زندگی گزارنے کی خواہش بڑھتی گئی۔’میں کیا کروں، کیا نہ کروں؟‘ کی تلاش میںایک دن مجھے گاؤں میں معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ڈرائیور بننے کی ٹریننگ لینے جارہی ہے۔ میں بھی اس کے ساتھ جے پور کے لیے روانہ ہوگئی۔ یہ چھ ماہ کا کورس تھا۔ ہاسٹل مل گیاجہاں مختلف جگہوں سے آنے والی کئی لڑکیاں پروفیشنل ڈرائیور بننے کا کورس کر رہی تھیں۔ وہاں مجھے کمپیوٹر پر ڈرائیونگ کی تھیوری کلاس کرنی پڑتی تھی، یہ میری زندگی کا سب سے اہم موڑ تھا۔ میں شروع سے ہی ڈیجیٹل تعلیم کی طرف مائل تھی۔ لیکن سہولتوں کی کمی اور معاشرے کی پابندیوں کی وجہ سے کبھی اس میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا۔
میری ؔنے وہاں ڈرائیونگ کا کورس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سیکھنا بھی شروع کر دیا۔وہ بڑی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں کہ ڈیجیٹل دنیا میں اس کا سفر بہت پرجوش تھا۔ اس سفر میں بہت سی نئی چیزیں سیکھیں، اس دوران انہوں نے راجستھان اسٹیٹ کورس آف انفارمیشن ٹیکنالوجی (RSCIT) کا کورس بھی مکمل کرکے اسی سال کمپیوٹر آپریٹر پروگرامنگ اسسٹنٹ کا باقاعدہ ITI کورس کیا اور 2019 میں سوشل ورک میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 2017 میں، میری کو اجمیر میں مقیم مہیلا جن ادھیکار سمیتی کا ٹیکنیکل ایجوکیشن سینٹر’’ ‘ٹیک سینٹر‘‘ قائم کرنے اور اس کے سہولت کار کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ اب وہ تکنیکی تفصیلات کواور بھی زیادہ قریب سے سیکھ رہی تھی۔پانچ سال کے مختصر عرصے میں، وہ تنظیم کے ‘ٹیکنالوجی اینبلڈ گرلز الائنس کی رہنما اور ٹیکنیکل پروگرام کی کوآرڈینیٹر بن گئیں۔ جس سے 2000 سے زائد لڑکیاں جڑی ہوئی ہیں۔ ٹیک سینٹر نوعمر لڑکیوں کے لیے ڈیجیٹل تعلیم کے ساتھ ساتھ زندگی کی مہارت، صحت، ان کے خوابوں، دلچسپیوں اور مستقبل کے بارے میں بولنے کے لیے ایک محفوظ جگہ فراہم کرتاہے۔ اس حوالے سے میری ؔکا کہنا ہے کہ صرف ٹیکنیکل ایجوکیشن لینے سے لڑکیوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ انہیں آرام دہ ماحول اور اس کے لیے تمام مواقع فراہم کرنے ہوں گے، تاکہ وہ مکمل علم کے ساتھ اپنی زندگی کے فیصلے جود لینے کے قابل بن سکیں۔
میری ؔسے متاثر ہو کر اس کی بہن شوبھنگانی بھی چھتیس گڑھ سے اجمیر آگئی۔جہاں اس نے بھی ڈیجیٹل تعلیم اور ٹیکنالوجی کو اپنی زندگی کا اہم حصہ بنا لیا۔ فی الحال شوبھنگانی کیکری، اجمیر میں چلائے جانے والے ٹیک سنٹر کو سنبھالتی ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں فیلوشپ بھی مل رہی ہے۔ شبھانگانی میری ؔکو اپنا رہنما مانتی ہے۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہے کہ آج وہ جس مقام پر ہے اس کی ایک وجہ اس کی بڑی بہن میری ہے۔ میری گاؤں کی پہلی لڑکی تھی جس نے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور ان کی وجہ سے ہی مجھے بھی ہمت ملی۔ میری ؔنے اپنی ہمت سے نہ صرف اپنی بہن کو بااختیار بنایا بلکہ اپنے والدین کی سوچ بدلنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔آج اس کے والدین اس کے ہر فیصلہ میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔میری ؔسے متاثر ہو کر نہ صرف شوبھنگانی بلکہ ٹیک سینٹر سے وابستہ دیگر دیہی لڑکیاں اب اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانا سیکھ گئی ہیں۔ کیکری کی رہنے والی 21 سالہ شاہینؔ بی ایس سی کے پہلے سال کی طالبہ ہے اور ٹیک سنٹر میں نوعمر لڑکیوں کو تربیت دیتی ہے۔ شاہین کا کہنا ہے کہ’’میں نے میری سے ہی معاشرے کی غلط پابندیوں کو توڑنا سیکھا ہے، ان کے الفاظ سے مجھے بہت ہمت ملتی ہے اور آج مجھے اتنا اعتماد ہے کہ میں اپنی باتوں کوسب کے سامنے رکھ سکتی ہوں۔ شاہین ؔکی طرح ہی سنکاریا گاؤں کی رہنے والی 22 سالہ کوملؔ بھی میری کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے۔
مہیلا جن ادھیکار سمیتی کی رکن پدما جوشی میری کو ایک متاثر کن اور بہادر لڑکی مانتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس نے نہ صرف خود کو بلکہ ادارے کو بھی ڈیجیٹل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور تمام عملے کو تکنیکی طور پر قابل بنایا۔ آج کے دور میں دیہی لڑکیوں کے لیے ڈیجیٹل تعلیم بہت ضروری ہے، اس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے خیالات کو دنیا کے سامنے رکھ سکتی ہیں بلکہ اپنے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر سکتی ہیں۔ درحقیقت، ڈیجیٹل طور پر بااختیار ہو کر، مریم اور اس جیسی دیگر لڑکیوں نے ثابت کیا ہے کہ تکنیکی علم نے انہیں بااختیار بننے میں مدد کی ہے۔(چرخہ فیچرس)