ٹوٹے خواب افسانہ

بلال احمد پرے
معراج اور اُس کا قریبی دوست اعجاز مسلسل کئیں برسوں سے سرکاری سطح پہ روزگار حاصل کرنے کی غرض سے درخواست دیتے آئے تھے لیکن اُنہیں بدستور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا – معراج اور اعجاز کی آپس میں اچھی خاصی دوستی تھی اور دونوں کے خیالات کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتے تھے – معراج نے پوسٹ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد بی ایڈ کورس کے لئے یونیورسٹی کے فاصلاتی نظام میں داخلہ لیا تھا – اعجاز نے انگریزی زبان میں پی ۔جی کیا تھا اور اب پرائیویٹ نوکری کے لئے پڑوس میں ہی تحصیل سطح کے ایک پبلک ہائی اسکول میں بطور انگریزی زبان کے معلم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتا تھا –
دیگر پڑھے لکھے بے روزگار لوگوں کے ساتھ ساتھ یہ دونوں دوست بورڈ سے نکلنے والی روزگار نوٹیفکیشن کے انتظار میں بڑی بے صبری سے بیٹھے تھے – اعجاز کی عمر معراج سے تقریباً چار سال زیادہ تھی اور سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لئے اُس کے پاس اب صرف چھ ماہ بچے ہوئے تھے – بورڈ نے جونہی مختلف زمروں کے لئے ایک بڑی تعداد میں اسامیاں مشتہر کیں تو دونوں دوستوں نے درخواست دینے کی تیاری کیں اور ڈومیسائل سرٹیفکیٹ بنا کر رکھ دی –
” یار یہ میرے لئے اب آخری موقع ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں تو سرکاری نوکری میرے لئے بس ایک خواب ہی ہو گی “-
اعجاز نے ٹوٹے ہوئے دل سے اپنے دوست معراج کو بتایا –
” ایسا نہ کہو ۔۔۔۔۔ مایوسی گمراہی ہے – اس بار ہم محنت کر کے نوکری حاصل کر کے ہی دم لیں گے “-
معراج نے اپنے دوست اعجاز کو ہمت و حوصلہ دے دیا اور مل کر جستجو کرنے کے لئے کہہ دیا –
دونوں نے مل کر نائب تحصیلدار کی اسامی کے لئے اپنی درخواستیں آن لائن جمع کیں – اب تحریری امتحان کے لئے آئے روز کئیں گھنٹے مسلسل پڑھائی کرتے رہے-
چھ ماہ گزر گئے – اعجاز کی عمر اب چالیس سال تجاوز کر گئی – اُ سے بے حد پریشانی ہونے لگی – رات کی نیند اُڑنے لگی اور نہ دن کا چین جاتا رہا – اب اُس کے لئے بس یہی ایک موقع بچا تھا کہ تحریری امتحان میں کسی طرح کامیابی کا جھنڈا گاڑ دے –
” کیوں یار ! ۔۔۔۔۔۔۔ آج کل کچھ زیادہ ہی پریشان دِکھتے ہو “-
معراج نے اپنے بچپن کے دوست اعجاز کا چہرہ پڑھتے ہی کہہ دیا –
” دیکھو یار تم نے صحیح پکڑ لیا – کیا بتاؤں ۔۔۔۔۔ جب سے میری عمر چالیس سال سے تجاوز کر گئی تب سے ہر صبح اور شام ڈسنے لگتی ہے “-
اعجاز نے غم و پریشانی کے عالم میں اپنے دل میں دفنائے ہوئے خیالات دوست کے سامنے ظاہر کر دیئے –
” یار یقین رکھو ۔۔۔۔ اس بار تم ضرور کامیاب ہو جاءو گے “-
معراج اپنے دوست کو ہمت و حوصلہ دیتا رہا – وہ دونوں دوست آپس میں باتوں باتوں میں مست تھے کہ اُن کے سامنے سے نزدیکی بستی کی مشہور و معروف با اثر سیّاسی شخصیت کا مالک ” ڈار صاحب ” گزا- وہ اپنی چالاکی میں مشہور تھا – اُس نے اِن دونوں دوستوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی – دونوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا-
” بیٹے۔۔۔۔ نوکری کے لئے کوئی درخواست نہیں دیتے ہوں کیا ! ویسے آج کل درخواست دینے والے بچارے کہاں لگتے ہیں – یہ تو بس سادہ لوح لوگوں کو دِکھانے کا ایک ڈرامہ ہوتا ہے “-
ڈار صاحب نے اُن دونوں دوستوں کو مایوس کرنا چاہا اور رشوت حاصل کرنے کی غرض سے بات کو گُھماتا گیا –
” دیکھئے ڈار صاحب ! وہ زمانہ اب نہیں رہا ۔۔۔۔ کہ ان پڑھ جاہل لوگوں کو سرکاری نوکری کسی کی مہربانی سے دی جائے – اب کیمپوٹر کی مدد سے امتحانات لئے جاتے ہیں اور اُس کے فوراً بعد جوابات کی کلید منظر عام پر لائی جاتی ہیں – اب میرٹ چلتا ہے اثر و رسوخ نہیں “-
اعجاز نے پچھلے کئی امتحانات میں حصّہ لینے کے تجربات سے یہ اخذ کیا تھا اور ڈار صاحب کو دم دار جواب دیا کہ اُس کے دانت کھٹے پڑ گئے –
اعجاز کی بات مکمل ہوتے ہی معراج نے ڈار صاحب کو مزید حقیقت سے روشناس کرنا چاہا –
” ہاں ایک بات ضرور ہے کہ رشوت لینے والے لوگ کئی شریف خواہش مند افراد سے نوکری کا جھانسہ دے کر لوٹ لیتے ہیں اور اُن پر بھی قسمت آزمائی کرتے ہیں جو اپنی محنت سے منتخب ہوں۔ اُس کے پیسے ہضم کر دیتے ہیں اور جو ناکام ہوجاتے ہیں اُنہیں ان کا دیا ہوا پیسہ جلدی واپس کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں اُن دونوں گروپوں کے ذریعے ایسے رشوت خوروں کے چرچے ہر جگہ عام ہو جائیں – اور اُن کا کاروبار بہ آسانی آگے چلتا رہے “-
یہ سن کر ڈار صاحب ناراض ہوئے اور اُس نے اپنی گردن کو تیز جھٹکے میں موڑ دیا اور جاتے جاتے اُن دونوں دوستوں کی طرف بلاواسطہ طعنہ دے گیا –
” جوانی میں نوکری ملی نہیں ۔۔۔۔ اب بُڑھاپے میں در بہ در پھرتے ہو ” –
ڈار صاحب نے تنقیدی جملہ کستے ہوئے اپنا راستہ لے لیا – لیکن اِس سے اِن دونوں دوستوں کی لگن اور جستجو میں ذرا بھی کمی نہیں آئی –
چند روز بعد بورڈ نے تحریری امتحانات کا اشتہاری نوٹس نکال دیا – اب دونوں دوستوں نے اور زیادہ محنت کرنی شروع کر دی – دونوں تحریری امتحان میں شامل ہونے کے لئے معراج کی موٹر سائیکل پہ سوار ہوگئے – امتحانی مرکز کے قریب پہنچتے ہی اُنہیں حادثہ پیش آیا- اُن کی موٹر سائیکل سے ایک راہ چلتے بچے کو ٹکر لگ گئی- اور موٹر سائیکل ایک طرف گر گئی ہے، جس سے اعجاز کی دائیں ٹانگ میں شدید چوٹ آئی – آس پڑوس کے دکاندار جمع ہوگئے- کچھ نے بچے کو بچا لیا تو کچھ ویڈیو بنانے لگے-
” یار آپ ٹھیک ہو ۔۔۔۔ “-
اعجاز نے جلدی سے اپنے آپ کو سنبھالا اور معراج کی ٹانگ پہ گری موٹر سائیکل اٹھا لی –
” یار ۔۔۔۔۔ او ۔۔۔۔۔۔۔ ٹانگ شاید ٹوٹ گئی ہے ! ۔۔۔۔۔۔۔ ”
معراج نے شدید درد کا اظہار کیا اور اُسے وہاں جمع لوگوں نے بڑی مشکل سے اُٹھا لیا –
” ہیلو ۔۔۔۔ چھوٹو ۔۔۔۔۔۔تم ٹھیک ہو “-
معراج ڈرے، سہمے اور گھبراتے ہوئے اس بچے کے چہرے پہ ہاتھ پھیرتا رہا –
چھوٹوں کو بازوں اور پیر میں تھوڑی سی چوٹ لگی تھی اور وہ زبردست ڈرا ہوا تھا – بے تحاشا رو رہا تھا –
” اعجاز ! پہلے بچے کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ جلدی سے ڈاکٹر کے پاس لے چلو “-
معراج نے دونوں ہاتھوں سے ٹانگ پکڑ کر رکھی تھی ۔ اس نے شدید درد ہونے کے باوجود اعجاز کو بچے کو فسٹ ایڈ لگانے کے لئے کہہ دیا –
کسی نے اُن سب کو پانی پلایا –
” ٹھیک ہے میں اُسے پہلے ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں لیکن تم۔۔۔۔ “-
معراج کو بچے کے ساتھ ساتھ اعجاز کی فکر بھی تھی –
” یار میری فکر نہ کرو – میں سنبھال لوں گا – پہلے امتحان کا سوچتے ہیں “-
اعجاز درد برداشت کرتا رہا اور دوست کو امتحان میں شامل ہونے کے لئے کہتا رہا –
“دیکھ اگر زیادہ وقت لگ گیا، تو تم امتحان دینے چلے جانا، ہاں انتظار نہیں کرنا ۔۔۔۔۔۔ “-
معراج نے جلدی سے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی – بچے کو ڈاکٹر کے پاس لیتے لیتے اعجاز کو امتحان میں شامل ہونے کے لئے کہتا رہا –
وقت گزرتا گیا اور امتحان کی گھڑی قریب سے قریب تر آ گئی – اعجاز درد سے مارا معراج کے بغیر امتحان مرکز کی طرف اب مجبوراً قدم بڑھانے لگا – امتحان شروع ہوا لیکن اعجاز کے ذہن میں معراج کے متعلق نہ جانے کیسے کیسے خیالات آتے رہیں –
امتحان ختم ہوتے ہی معراج مرکز کے باہر اپنے دوست کا انتظار کر رہا تھا –
” ارے یار! کیا تم نے امتحان نہیں دیا ؟”
اعجاز نے حیران ہو کر پوچھا –
” چھوڑو یار ۔۔۔۔ خدا کے فضل سے سب کی جان بچی ۔۔۔۔ اپنی خیریت بتاؤ”-
معراج نے واپس امتحان کی فکر کیے بغیر حال پوچھ لیا –
اعجاز نے دوست کا امتحان چھوٹنے پر افسوس کیا –
” یار مجھے اس کا بے حد غم ہے “-
دونوں اب نزدیک ہی ایک طبعی کلینک پہ چلے گئے – اعجاز کی ٹانگ میں دوائی لگا کے مرہم پٹی کی گئی – چائے پی لی اور گھر کے لئے سوار ہوئے – گھر میں اس حادثے کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا –
اگلے روز بورڈ نے جوابات کی کلید (answer key) نکال دی …. تو اعجاز نے بیانوے (92) نمبرات حاصل کئے تھے – اس کے بعد اعجاز کچھ حد تک مطمئن تھا لیکن میرٹ کا کچھ پتہ نہیں کتنا کٹ ہو جائے-
چند ماہ گزرنے کے بعد بورڈ نے منتخب امیدواروں کی فائنل فہرست شائع کیں تو اعجاز کا نام منتخب امیدواروں کی فہرست میں دسویں نمبر پر تھا – معراج نے اُس حادثے کو یاد رکھے بغیر اعجاز کو سب سے پہلے یہ خوش خبری فون پر سنا دی-
“ہیلو یار مبارک ہو ! نائب تحصیلدار کی لِسٹ نکل چکی ہے – تم سلیکٹ ہو “-
اعجاز پرائیویٹ اسکول میں اپنی ڈیوٹی پہ تھا جب اُس سے معراج کا فون آیا-
” واللہ سچ کہہ رہے ہو ” –
اعجاز کو یہ سن کر یقین ہی نہیں ہو رہا ہے –
” اور کیا تجھے مذاق لگتا ہے – ویب سائٹ پہ خود دیکھ لو “-
معراج نے اُس کی کامیابی پہ خوشی سے جواب دیا –
” چلو اب گھر جلدی سے آجاؤ – میں انتظار کرتا ہوں”-
معراج نے جلدی سے گھر آنے کے لئے کہا-
“ٹھیک ہے یار —- بس اب نکلنے والا ہوں “-
اعجاز نے بھی واپس جلدی آنے کا وعدہ کیا –
اعجاز گھر لوٹ آیا – راستے میں ہر طرف لوگ مبارکباد پیش کرتے ہیں – رشتہ داروں، ہمسایوں اور دوستوں نے پھولوں اور مٹھائیوں سے استقبال کیا – والدین کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپکنے رہے ہیں – سب نے اُس کو گلے لگا لیا –
ہر طرف خوشی کا ماحول تھا لیکن خود اعجاز اپنے چہرے پہ بظاہر وہ خوشی ظاہر نہ کر سکا جس کی وہ مدّتوں سے تلاش میں بیٹھا تھا – اُسے اپنے دوست کے امتحان چھوٹنے ( miss ) کا غم ابھی بھی تھا جو اُس کی خوشی پہ بھاری پڑا ہوا تھا- یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، یہاں تک کہ ڈار صاحب نے بھی سن لیا- اعجاز نے بالآخر عمر کی حد ڈھلتے ہی صحیح لیکن نوکری کی جستجو پوری کی ، جس ذکر ڈار صاحب اکثر اپنی بستی کے دیگر پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کے ساتھ کرتا تھا-
اعجاز کی زندگی میں اب رونق ہی رونق تھی – اُس کا اب اپنا خوشحال گھر تھا – محکمے میں اعجاز کی ایمانداری کے خوب چرچے ہوتے گئے – وہ بہت ہی کم وقت میں اپنے اعلٰی کردار اور صلاحیتوں سے پہچانے جانے لگے- وہ اپنی ایک امتیازی شخصیت بنانے میں کامیاب ہوگئے –
اُسے ضلع انتظامیہ نے کئی انعامات سے بھی نوازا – لیکن اچانک لیمفوسائیٹک لیوکیمیا (Lymphocytic Leukaemia) کے شکار ہو گئے – اُ سے فوراً بڑے طبعی انسٹیٹیوٹ میں زیر علاج رکھا گیا – لوگ دعائیں کرتے رہیں، ڈاکٹر ہر تدبیر آزماتے رہیں – اُس کے والدین مالک حقیقی سے گِڑ گِڑا کر اس کی خیر و عافیت کے لئے منتیں مانگتے رہیں – رب کا فیصلہ کچھ اور تھا کہ اعجاز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان سب کو یہ دنیا چھوڑ کر چلا گیا –
���
ہاری پاری گام ترال،پلوامہ
موبائل نمبر؛ 9858109109