سیلفی افسانہ

رحیم رہبر

اُس دن سارا آڈیٹوریم لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اُدباء، سخن شناس، سخن فہم اور انجمن ساز لوگ میرا افسانہ ’’سیلفی‘‘ سننے کیلئے دور دور سے آئے تھے۔ بالکونی میں بھی کوئی سیٹ خالی نہیں تھی۔ میرے افسانے کے ہر جملے پر لوگ تالیاں بجا کر مجھے داد دیتے تھے۔ افسانے کے وحدت تاثر ، بیانیہ اور کردار کی کشمکش نے تمام حاضرین و ناظرین کو برابر تب تک اپنی گرفت میں رکھا جب تک کہ میں نے افسانے کا آخری جملہ ’’میرے پائوں تلے زمین کھسک گئی‘‘نہیں پڑھا۔ میرے افسانے نے سامعین میں ایک انوکھی کپکپی پیدا کی۔ ہر ایک کی زبان سے ’’واہ، واہ‘‘ نکل رہا تھا۔ شائد اس سے قبل مجھے اتنی داد و تحسین کبھی نہیں ملی تھی۔
جونہی میں افسانہ پڑھ کر فارغ ہوا، لوگوں نے شہد کی مکھیوں کی طرح مجھے اپنے حصار میں لیا اور میرے ساتھ سیلفی اُٹھانے لگے۔ یہ دسمبر کا مہینہ تھا اور آخری ہفتے کا دن تھا۔ شام کے پانچ بج چکے تھے۔ میرے رُوٹ پر جانے والی آخری بس کا وقت چھ بجے تھا۔ میری جیب میں صرف بس کرایہ کیلئے30روپے تھے۔ اس لئے میں اسی فکر میں تھا کہ یہاں سے کب آزاد ہوجائوں، پر ایسا نہیںہوا۔ لوگ میرے ساتھ سیلفی اُٹھاتے رہے۔ وہاں آخری بس کے جانے کا وقت تیزی سے پھسل رہا تھا اور شام کے 7بج چکے تھے۔ اب میری گاڑی چھوٹ گئی! آخر کار سب لوگ مجھے اکیلا چھوڑ کر اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوئے۔ آٹھ بجے شام میں آڈیٹوریم سے باہر آیا اور پیدل سفر شروع کیا۔ راہ چلتے میرا ضمیر مجھ سے بار بار پوچھ رہا تھا۔
’’اس شہرت نے آپ کو افلاس اور تنگ دستی کے سوا کیا دیا! آپ نے اپنی بیوی بچوں کا وقت چُرایا ہے! آپ نے ادبی آوارہ گردی میں اپنی زندگی کے ساٹھ سال گنوا دیئے! تمہارے پاس اب رہا ہی کیا ہے؟ اس شہرت نے تمہیں اپنوں سے دور کردیا۔ بھلے ہی تم ایک بڑے افسانہ نگار ہو پر تم نے بیوی بچوں کی خوشیوں پر ڈاکہ ڈالا! لوگوں کو خوش کرنے کے لئے تم نے اپنے گھر کی خوشیاں نیلام کردیں۔ نادان ہو تم! لوگوں نے آپ کو موبائل میں قید کر رکھا ہے۔ تمہاری حیثیت ہی کیا ہے؟ اب کہاں جائو گے۔ کس در پہ دستک دو گے؟ سوشل میڈیا، وٹس اَپ، یوٹیوب اور انسٹاگرام پر تم کا فوٹو پہلے ہی وائرل ہوا ہے! کچھ لوگوں نے آپ کو کیش بھی کیاہے! کس کس کو اصلیت بتائو گے کہ تم محض ایک غریب کہانی کار ہو جو اپنے ٹوٹے ہوئے خواب اور اپنی سوختہ آرزوئیں بیان کررہا ہے! کس کو بتائو گے کہ تم اپنے بکھرے ہوئے وجود کو اپنے قلم سے سمیٹنے کی ناکام کوشش کررہے ہو!‘‘۔
میرا ضمیر مجھ سے اور بھی بہت کچھ پوچھ رہا تھا لیکن میں لاجواب تھا۔یہاں تک کہ میں رات کے اندھیرے میں بجلی کے کھمبے کے ساتھ ٹکرا گیا اور سر کے بل میگڈم روڑ پر گرا!
’’سنبھل کے چل۔۔۔ اتنی دیر!۔۔۔ کہاں سے آرہے ہو۔۔۔۔ کہاں جارہے ہو!؟‘‘
یہ آواز مجھ جانی پہچانی سہی لگی۔۔۔ میں نے خود کو سمیٹنے کی کوشش کی اور پھر سفر شروع کیا۔
’’ٹھہرو۔۔۔!‘‘
پھر آواز آئی
’’یہ کون ہوسکتا ہے؟‘‘ وہ۔۔۔ ہاں وہ نہیں ہوگا۔۔۔ اس سرد رات میں اور اس وقت وہ بھی اس ہائی وے پر! کوئی اور ہوگا‘‘۔
اس سوچ کے ساتھ میں نے پھر اپنا سفر شروع کیا۔
’’ارے! پہلے میرے سوالوں کا جواب دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میرے سامنے کھڑا ہوا۔ وہ چادر لپیٹے ہوئے تھا۔ میں نے موبائل کی ٹارچ آن کی۔ اس کے گھنے بال بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے دفعتاً سگریٹ جلایا ۔ دو تین لمبے کش لینے کے بعد اُس نے میرے ہاتھوں میں کاغذ تھما دیا اور دھیمی آواز میں بولا۔
’’یہ لو۔۔۔۔ یہ تمہاری امانت ہے۔۔۔ یہاں گِری تھی‘‘۔ اس آواز میں کرب تھا۔
میں نے اُس کے ہاتھ سے کاغذ پکڑ لیا۔ اُس نے میرا بایاں ہاتھ پکڑ لیا۔ سڑک کراس کرنے کے بعد اُس نے مجھے پاس ہی ایک دُکان کی سیڑھی پر بٹھایا۔ دُکان کے باہر سیفٹی بلب روشن تھا۔ میں نے کاغذ کھولا۔ اس پر خون کے دھبے دیکھ کر میں سہم گیا۔
’’ٹپ۔۔۔ٹپ۔۔۔ٹپ۔۔۔ٹپ‘‘ میرے زخم سے خون رِس رہا تھا۔ زخم میرے ماتھے پر لگا تھا۔ میں نے فوراًرومال سے زخم پر پٹی باندھی۔ یہ وہی افسانہ تھا جو میں نے آڈیٹوریم میں سنایا تھا۔ اس افسانے کا لفظ لفظ میرے خون سے رنگا تھا۔
’’میں تمہارے زخمی الفاظ کا درد محسوس کرتا ہوں۔ پر اب کچھ پرواہ نہیں۔ اب تمہارے زخم کا مرہم ہوا ہے! دیر سے ہی سہی!‘‘ اُس نے نرم لیجے میں کہا۔
’’تم۔۔۔تُم کون ہو؟‘‘ میں نے انہماک سے پوچھا۔
’’واہ۔۔۔ واہ رے واہ! ایک بار کیا گرے سب بھول گئے!؟‘‘
’’جناب! میں سمجھا نہیں‘‘۔
اُس نے اپنا دایاں ہاتھ میرے کندھے پر رکھا اور اطمینان سے بولا۔
’’پیارے! بھول گئے وہ دن جب تم میرے ساتھ ایک سیلفی اُٹھانے کے لئے بے قرار تھے!؟ اب تمہاری طرح میں بھی ٹوٹ چُکا ہوں!‘‘
میں چونک گیا، دفعتاً میں نے اپنے موبائل کی فووٹو گیلری دیکھی، وہ کوئی اور نہیں تھا۔ وہ ایک بڑے افسانہ نگار تھے، جن کو مقبولیت عام حاصل تھی۔ میرے پائوں تلے زمین کھسک گئی۔!‘‘۔

���
آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ، ماگام کشمیر
موبائل نمبر؛9906534724