افسانچے

رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر

وزن
ڈلگیٹ سے لال چوک تک چہل قدمی کرنے کے دوران جوں ہی وہ ریزیڈنسی روڈ سے آگے گزرا تو ایک نوجوان، جس نے سامنے ہی وزن معلوم کرنے کی ایک مشین رکھی تھی، یہ آواز دیتے ہوئے گاہکوں کو اپنی جانب راغب کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا تھا ۔۔۔۔ خالی پانچ روپئے میں اپنا وزن چیک کریں ۔ خالی پانچ روپئے میں ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے پانچ نہیں بلکہ دس روپے اس کے حوالے کئے اور مشین پر چڑھ گیا ۔ بتاؤ کتنا وزن ہے میرا ؟
جناب آپ کا وزن ٹھیک ہے ، ساٹھ کے جی ۔۔
بس ساٹھ کے جی ۔ آپ کی یہ مشین غلط دکھا رہی ہے اصل میں میرا وزن ایک سو ساٹھ کے جی ہے ۔۔
ایک سو ساٹھ ، مگر وہ کیسے ؟
میری پریشانیاں اور غم ایک سو کے جی سے زیادہ ہیں مگر آپ کی اس مشین نے بھی ان کو نظر انداز کیا ہے ۔۔

بجلی
ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد جب میں مسجد سے باہر آیا تو میں نے مسجد کے باہر بجلی کا بلب جلتے ہوئے پایا ۔ میں نے ایک جوان سال لڑکے سے، جس نے نماز پڑھائی تھی۔ دن میں بجلی بلب آف رکھنے کی تلقین کی ۔
وہ بولا ۔۔۔ سر یہاں میٹر نہیں لگائے گئے ہیں ۔
لیکن بجلی اور توانائی ضائع تو ہو رہی ہے نا اسے بچانا ہمارا فرض ہے ،میں نے‌کہا ۔۔۔۔۔۔ سر آج کل بجلی کی وولٹیج کافی زیادہ ہوتی ہے ۔‌ معمولی ایک یا دو بلب جلانے سے کیا فرق پڑے گا جلنے دو ۔
یہ بات سن‌کر میرے دل ودماغ میں بار بار ایک ہی سوال گردش کرتا رہا ۔۔۔
آخر ہمارے سماج میں ذہنی پسماندگی کب دور ہوگی ۔