اِنٹرنیٹ کی دنیا کہانی

سید اسرار نازکی

وادی میں کئی روز سے حالات نا سازگار تھے۔ انٹرنیٹ سروس کے علاوہ فون بھی کئی دنوں سے بند پڑے تھے۔ گھر میں بیٹھے بیٹھے سب لوگ اُکتا گئے تھے۔ ’’آپ…آپ کہیں جا رہے ہیں کیا ؟‘‘ زبیر نے اپنے بابا اقبال میاں کو بیگ میں کپڑے ،تولیہ ، صابن ،برش وغیرہ رکھتے ہوے دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا ۔
’’جی ہاں بیٹا …میں کل صبح فجر کی نماز کے بعدتبلیغی جماعت کے ساتھ چالیس روز کے لئے جا رہا ہوں ۔‘‘ !!! ’’ لیکن بابا ‘‘ …! ’’لیکن ویکن کچھ نہیں، بیٹا یہ بڑا نیک کام ہے اور ویسے بھی ہڑتال کی وجہ سے میں پچھلے کئی روز سے گھر میں بیکار ہی تو بیٹھا ہوں۔‘‘اقبال میاں نے بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے جواب دیا۔’’لیکن بابا…گھر میں …‘‘ اپنے نا مکمل جملے کو سوالیہ نظروں سے زبیر نے مکمل کرنا چاہا۔
’’کیوں تم جو ہو ‘‘ بیٹے کو اُسکے بڑا ہونے کا احساس دلاتے ہوئے اقبال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اقبال اپنے نزدیک والے قصبے میں اپنی ایک دوکان چلاتا تھااور اسکا ایک چھوٹا سا پریوار تھا۔ اسکے گھر میں اسکی بیوی عابدہ، بیٹے زبیر کے علاوہ بڑی بیٹی صائمہ بھی تھی جسکی شادی ہو چکی تھی۔ عابدہ خاموش تماشائی بنکر باپ بیٹے کی باتوں کو سُن رہی تھی۔وہ اقبال میاں کی باتیں سُن کر کافی پریشان ہو رہی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ اس معاملے کو لے کر اقبال سے بحث کرنا فضول ہے۔عابدہ اقبال سے بے حد محبت کرتی تھی یہاں تک کہ دو یا تین دن بھی اقبال سے دوُر رہنا اُسے نا ممکن لگتا تھااور آج چالیس دن دوُر رہنے کی بات سُن کر وہ ایک مجسمے کی طرح سُن ہو کر رہ گئی۔ عابدہ دل کی بات زبان پر لانے سے ہمیشہ احتراز کرتی تھی۔کچھ اُسکی خاموش مزاجی کا اثر تھا اور کچھ اقبال میاں کی ہر بات کو ان سُنا کرنے کا نتیجہ ۔بیشک عابدہ کی زبان خاموش تھی لیکن دل میں کئی سارے سوالات عابدہ کو پریشان کئے جا رہے تھے۔ان سوالات میں سب سے بڑے دو سوال تھے جنہوں نے عابدہ کے دل و دماغ میں تلاطم مچا رکھا تھا۔ ایک عابدہ کی خود کی بیماری کو لے کر اور دوسرا زبیر کی آوارہ گردی کو لے کر تھا جو اقبال میاں کے گھر سے جاتے ہی کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی تھی۔وہ اندر ہی اندر اس بات کو لے کرزیادہ پریشان تھی کہ اقبال میاں جانتے تھے کہ عابدہ دل کے مرض میں مبتلا ہے اور اسکے باوجودانہو ں نے چالیس روز تک گھر سے دوُر رہنے کا فیصلہ لیا۔عابدہ کی خاموش مزاجی آج بھی اس پر حاوی رہی اور وہ کچھ نہ کہہ پائی۔
بہر حال اگلے دن فجر کی نماز کے بعد اقبال میاں کچھ لمحوں کے لئے گھر آئے اور زبیر کو بنا بتائے اپنا بیگ لے کر چلے گئے۔زبیر جب نیند سے جاگا تو پتہ چلا کہ بابا تو چلے گئے ہیں اور وہ ناشتہ کرتے ہی ماں کے منع کرنے کے باوجود دوستوں سے ملنے چلا گیا۔چند روز گزر جانے کے بعدحالات میں سدھار آنے لگااور فون سروس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر لگی پابندی بھی ہٹا دی گئی۔ادھر زبیر نے کئی روز سے ضد پکڑ رکھی تھی کہ اُسے ایک نیا موبائل فون چاہئے اوراقبال میاں کی غیر موجودگی کو غنیمت جان کر اُس نے ماں کو پیسے دینے پر مجبور کر دیا۔ماں تو آخر ماں ہوتی ہے، بیٹے کی ضد کے آگے آخر پگھل ہی گئی۔زبیر نیا فون لے کر کافی خوش تھااور بہت دیر تک اپنے دوستوں کے ساتھ مستی کرتا رہا۔عابدہ گھر میں اکیلی بیٹے کا انتظار کرتے کرتے تھک چکی تھی۔ایک طرف سے اقبال کے گھر سے باہر رہنے کا اچانک فیصلہ اور دوسری جانب زبیر کی لاپرواہیاں اور اُسکا غیر ذمہ دارانہ رویّہ۔ کئی سارے سوالات اور کئی ساری پریشانیوں نے عابدہ کے دل و دماغ میں گھر کر لیا تھا۔ اُسے آج شام سے ایک عجیب سی گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔زبیر کئی روز سے بہت دیر سے گھر آتا تھااور آج تو اس نے حد ہی کر دی۔عابدہ دیر رات تک اسکے انتظار میں بیٹھی رہی کہ کب وہ آئے اور وہ دونوں کھانا کھاتے۔گہری سوچوں میں گُم کب عابدہ کی آنکھ لگ گئی اُسے پتہ ہی نہ چلا۔دروازے پر دستک کی آواز سُن کر عابدہ چونک گئی۔’’ کیا ہوا امّی …تم ٹھیک تو ہو نا ؟‘‘عابدہ کو اُداس دیکھ کر زبیر نے رسماً پُوچھ لیا۔’’ تم اتنی دیر تک کہاں تھے ؟‘‘ زبیر کے سوال کو ان سُنا کرتے ہوئے عابدہ نے دبی دبی آواز میں پُوچھا۔’’بس میں …وہ … دوستوں کے ساتھ… موبائل کی سیٹنگ کروا رہا تھا‘‘موبائل فون کے سکرین پرمسلسل نظریں جمائے زبیر نے جواب دیا۔ماں نے اب کوئی سوال نہیں پوچھااور زبیر کے لئے کھانا لگا دیا ۔انٹرنیٹ کی دنیا میں گُم زبیر ایسے کھانا کھا رہا تھا کہ جیسے کسی اور کے منہ میںکھانا ڈال رہا تھا۔موبائل کی آب و تاب نے اُسے اتنا اندھا کر دیا تھا کہ اُسے پتہ ہی نہ چلا کہ ماں نے کھانا ہی نہیں کھایا ۔ کھانا ختم کرتے ہی وہ جلدی سے اُٹھا اور کمرے میں چلا گیا۔ موبائل پر دوستوں کے ساتھ مست کبھی واٹس ایپ ، کبھی فیس بُک ، کبھی میسنجر تو کبھی انسٹا گرام ۔ یہ سب ایپلیکیشنز دوستوں نے ہی تو ڈاون لوڈ کر کے دی تھیں۔عابدہ دوائیاں کھا کر کمرے میں سونے کے لئے آگئی۔اسکی حالت کچھ زیادہ ہی خراب ہو نے لگی تھی لیکن موبائل اور انٹرنیٹ کی دنیا میں مست زبیر ہر بات سے بے خبر تھا۔’’زبیر …بند کرو یہ موبائل اوراب سو جائو‘‘رات کے بارہ بجے درد کی شدّت جب برداشت کی حد کو پار کرنے لگی تو عابدہ نے بیٹے کو اُسکی حالت سمجھنے کا اشارہ کیا۔’’امّی …تم سو جائو ، میں ابھی…بس‘‘مسلسل موبائل کی سکرین پر نظریں جمائے انٹرنیٹ کی دنیا میں گُم اُس بدنصیب کو ماںکا اشارہ سمجھ ہی نہ آیا۔’’زبیر …‘‘ رات کے قریب ایک بجے عابدہ نے لڑکھڑائی آواز میںبیٹے کو آواز دی۔’’ جی… امّی ‘‘ وہ اب بھی موبائل کی اور ہی دیکھ رہا تھا۔’’ بیٹا … مجھے پانی لا دو‘‘ پھیکی پھیکی آواز میں عابدہ نے مشکل سے چند الفاظ ادا کئے۔’’ رُکو … بس، ابھی لاتا ہوں‘‘ وہ ابھی بھی اپنی مستی میں تھا۔
بہر حال رات کے قریب دو بجے زبیر کے موبائل کی بیٹری ختم ہونے کو آئی تب جا کے وہ اُٹھا اور اپنے موبائل کو چارج پر لگا دیا۔ایک لمبی انگڑائی لینے کے بعد وہ کچن میں گیا اور ماں کے لئے پانی کا گلاس لے آیا۔ ’’امّی …امّی، امّی اُٹھو پانی نہیں پیناہے کیا… امّی‘‘ بہت بار بلانے کے بعد بھی عابدہ نہیں جاگی۔ زبیر نے ہاتھ لگا کر جگانا چاہا لیکن عابدہ آنکھیں بند کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو چکی تھی۔
���
لولاب کپواڑہ ، حال ارم لین نٹی پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛7889714415