دیمکوں کی ملکہ نہیں ملتی؟ انشائیہ

ایس معشوق احمد

خدا بخشے قبلہ مجتبیٰ حسین صاحب کو کتنے نیک اور خوش نصیب تھے کہ لائبریری جاکر دیمکوں کی ملکہ سے ملاقات کر آئے ۔ ملکہ نے اردو ادب کی خستہ حالی سے لے کر مفلر والے حالی تک ،میر، فانی سے لے کر اردو زبان میں عربی لکھنے والے ابوالکلام تک کے بارے میں جو کچھ فرمایا اس ساری تفصیل کو بہترین انداز میں رقم کیا۔ صاحبو ایک عرصے تک ہم نے لائبریریوں کی خاک چھانی ،کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا ،ان کی ورق گردانی بھی کی لیکن آج تک کسی دیمک نے ہم سے بات تک نہ کی اور بسیار تلاش کے باوجود ہمیں دیمکوں کی ملکہ کے دیداد نصیب نہ ہوئے۔ایسا ہرگز نہیں کہ دیمک کا وجود ناپید ہوگیا ہے شاید اس محرومی کی وجہ یہ ہے کہ وہ آخری صدی تھی کتابوں سے عشق کی اور آج کل بندہ خواہ مخواہ کی پریشانیوں میں اتنا الجھا ہوا ہے کہ کتابوں سے شغف رکھنا تو دور اسے محبوبہ تک سے عشق کرنے کی فرصت میسر نہیں۔
صاحبو ہم اتنے بے خبر واقع ہوئے ہیں کہ یہ بھی نہیں جانتے دیمکوں کی ملکہ کیسی دکھائی دیتی ہے۔کیا وہ بھی سر سے پا تک سونے میں غرق ہوگی؟ ،کیا اس نے بھی نفیس ،ملائم اور چمکیلا لباس زیب تن کیا ہوگا ، کیا وہ بھی خادموں، ناز برداروں اور خدمت گاروں سے گری ہوگی۔گر ایسا ہے تو دیمکوں کی ملکہ بس لائبریری کے محل میں رہتی ہوگی کہ سو دو سو کتابیں ملکہ اور اس کے ملازموں کے رہنے کے لئے ناکافی ہیں۔ہم جیسے قلیل کتابوں والے فرد سے بھلا ملکہ ملاقات کرکے کیا کرے۔مرزا کہتے ہیں کہ شاعروں اور ادبیوں کی ملاقات حسن کی ملکہ سے بس خواب میں ہوتی ہے کہ ان کا حلیہ اور حیثیت اتنی نہیں کہ حقیقت میں کوئی ملکہ ان سے آن ملے۔
اس حقیقت کا عکس ہماری آنکھوں نے بھی دیکھا کہ ہمارے سماج میں جہلا ترقی کرتے چلے جارہے ہیں۔کتابی کیڑے رینگ کر بھی نہیں چلتے اور احمق چھلانگیں مار رہے ہیں۔ اونچے عہدوں اور اونچی کرسیوں پر بس ان کا ہی قبضہ ہےسو مجتبیٰ صاحب کی اس بات پر ہم نے اتفاق کیا اور ایسے علم کو ترک کیا جس سے علم کی پیاس تو بجھ جاتی ہے لیکن پیٹ کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی۔دھوکہ دہی ، بے ایمانی اور چار سو بیسی کے ہزاروں گُر سیکھنے کی ہمیں ضرورت نہ پڑی کہ ان کاموں میں دنیا میں ہمارا ثانی نہیں۔ہمارے سماج میں بھنگ کے کاروباری ،چرس کے بیوپاری ، بے ایمانی کے ٹھیکدار اور رشوت کے پرستار ہی تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتے ہیں سو ان کی صحبتوں سے فیض پاکر نیک لوگ بھی اتنے بگڑ گئے کہ بدمعاشی میں اشرار سے آگے نکل گئے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تک نہیں ۔
کتاب کا نشہ کافور ہوا اور ہم شراب نوشی ، چرس، بھنگ ، افیون جیسے نشوں میں مبتلا ہوئے۔ کاغذ کی مہک کے بجائے ہمارے بدن بدبو کی طرف لپکے اور خمار کی حالت میں گلی کوچوں میں ہم رپٹنے لگے۔پی ڈی ایف اور سوشل میڈیا نے بھی رقیب کا کردار نبھایا اور ہمیں کتاب جیسی خوبصورت ، اعلی خیالات کی مالکہ ، بصیرت افروز عاقل محبوبہ سے دور کیا۔ جب ہم نے کتاب سے دوری اختیار کی تو دیمکوں کی ملکہ کہاں ملے گی؟ ۔مرزا کہتے ہیں کہ ملکہ سے ملاقات کے شوقین بس کتاب کےعشق میں مبتلا ہوجائیں ملکہ خود ان کے در تک آئے گی۔
دیمکوں کی ملکہ سے ہمیں اس لئے بھی ملاقات کا اشتیاق تھا کہ وہ ادب کے بارے صحیح سے بتاتی کہ آج کا ادب کیسا تخلیق ہورہا ہے اور کس معیار کا ہے۔ بس وہی تو ہے جس نے پورے ادب کو چاٹ رکھا ہے، باقی تو اپنی اور اپنے قریبی دوستوں کے سوا کسی کا پڑھنا ہی پسند نہیں کرتے کہ آجکل کیا کچھ لکھا جارہا ہے۔ابھی کل ہی ہماری ملاقات ایک ناقد سے ہوئی جس نے اپنے دوستوں کے فکروفن پر ایک درجن تنقیدی کتابیں رقم کی ہیں۔ ہم نے میر ،غالب اور اقبال کا تذکرہ چھیڑا تو ایسی نظروں سے ہمارے طرف دیکھا جیسے ہم نے انہیں ماں بہن کی گالیاں دی ہوں۔ان کے رویئے سے ہم پہلے گھبرائے پھر خفیف ہوکر کہا کہ حضور یہ تینوں اردو ادب کے بڑے شاعر ہیں۔ فرمانے لگے تو ہماری دوست جن پر ہم نے کتابیں لکھی ہیں وہ ڈرائیو ہیں یا برتن بناتے ہیں؟ وہ بھی تو شاعر ہیں اور تند لہجے میں فرمایا کہ جن کو میں نہیں جانتا ان کا ذکر میرے سامنے نہ کیا کرو۔ہم شرمندہ ہوئے اور معذرت طلب کی۔انہوں نے ہمیں معاف تو کیا لیکن یہ شرط رکھی کہ ہمیں انہیں ایک تختی بنوا کے دینا ہوگی جس پر یہ جملہ لکھوانا ہوگا کہ ” یہاں پر ہمارے دوستوں کے سواء کسی ادیب کی بات کرنا منع ہے”۔صاحبو تختی بنوانے کے بعد ہماری جان چھوٹی اور اب ان کے ہاں جب بھی جاتے ہیں بس ان کے دوستوں کا ہی تذکرہ کرتے ہیں۔انہوں نے جو کتابیں لکھی ہیں ان میں ملکہ ملنا تو محال ہے دیمک بھی ڈر کے مارے نہیں گھستی کہ بے ڈھنگ جملوں سے خواہ مخواہ ماری نہ جائے ۔مرزا کہتے ہیں کہ قارئین کی کیا مجال دیمک تک ان کتابوں کو کھانے سے پرہیز کرتے ہیں کہ غلط املا اور بے ترتیب جملوں سے ان کو بدہضمی ہوتی ہے، زبان بگڑ جاتی ہے اور خیالات خراب ہوتے ہیں۔ دیمکوں کی ملکہ سے ملنے کا شوق ہمیں آج بھی ہے اور ہم نے اس کی تلاش جاری رکھی۔ آج بھی کتابوں کی ورق گردانی بس اسی شوق میں کرتے ہیں کہ شاید کسی کتاب میں دیمکوں کی ملکہ مل جائے۔آپ کو بدگمان ہونے کی ضرورت ہرگز نہیں کہ ہمیں ملکہ کی تلاش اس لئے نہیں کہ وہ واقعی کسی ریاست کی ملکہ ہے یا وہ کوئی گل بدن حسینہ ہے جس پر فریفتہ ہوکر ہمیں اس ریاست کا شہزادہ بننا ہے بلکہ ہم بڑے ادب سے ادب کے حوالے سے دیمکوں کی ملکہ سے بات کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔صاحبو اگر آپ بھی کتاب پڑھنے کے شوقین ہیں اور اچانک آپ کی ملاقات دیمکوں کی ملکہ سے ہوجائے تو اس کی منت سماجت کرکے اسے ہم سے ملاقات کرنے کے لئے راضی کیجیے تاکہ ہم عصری ادب کے حوالے سے ان کی انمول رائے اور خیالات جان سکے۔
���
کولگام،کشمیر
موبائل نمبر؛8493981240