وقف املاک کی بازیابی کب ہوگی؟

گزشتہ کچھ عرصہ سے جموں شہر کے مضافات میں ایک مخصوص طبقہ سے وابستہ آبادی کے مکانات یہ کہہ کر مسمار کردئے جارہے ہیں کہ وہ جنگلاتی اراضی پر تعمیر کئے گئے ہیں۔انہدامی مہم کے تازہ واقعات اپنی نوعیت کا نہ کوئی پہلا واقعات تھے اور نہ آخری ہونگے۔یہ مہم اب گزشتہ چند برس سے جاری رہے اور شاید آگے بھی جاری رہے گی ۔سرکاری و جنگلاتی اراضی پر ناجائز قابضین کو یقینی طور پر بے دخل کیاجانا چاہئے اور اس میں کسی قسم کا امتیاز نہیں برتنا چاہئے ۔سرکاری یا جنگلاتی اراضی اقلیتی کسی بھی طبقہ نے ہڑپ کر لی ہو، قانون کی نظروں میں سبھی قصور وار ہیں اور اس کی سزا ایسے قابضین کو ضرور ملنی چاہئے تاہم جہاں سرکاری مشینری جنگلاتی و سرکاری اراضی پر ناجائز قبضہ چھڑانے میں اتنی منہمک ہیں وہیں سرکار کو اوقاف اراضی پر برسہا برس سے جاری غیر قانونی قبضہ سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں۔

 ارباب بست و کشاد کو معلوم ہوگا کہ پورے جموں صوبہ میں ہزاروں کنال وقف اراضی پر ناجائز قبضہ ہے ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق صوبہ جموں میں مجموعی طور پر وقف اراضی 35497کنال6مرلہ اور 181 مربع فٹ پر محیط ہے جس میں سے 27290 کنال خالی پڑی ہوئی ہے جبکہ8207کنال اراضی پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا ۔صرف جموں شہر میں 74ایسے افراد ہیں جو وقف املاک پر غیر قانوی طور قابض ہیں۔ اس کے علاوہ جموں شہر کے گول پنج پیر نامی گائوں میں خسرہ نمبرات728,729,731کے تحت 64کنال اور 13مرحلہ اراضی میں سے 15کنال اور3مرلہ اراضی پر 59لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔دیہی جموں میں فیلڈانسپکٹر رورل کے تحت 24لوگ اوقاف املاک پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جبکہ جموں ضلع کے تحصیل اکھنور میں 49لوگ وقف املاک پر قابض ہیں اور اس اراضی کے لئے روشنی سکیم کے تحت مالکانہ حقوق تفویض کرنے کی خاطر نرخ مقرر کئے جا چکے ہیں۔ اکھنور تحصیل میں ہی24مقامات پر سرکاری محکموں نے سینکڑوں کنال اراضی پر قبضہ جما لیا ہے۔ غور طلب ہے کہ ان محکموں میں محکمہ تعلیم ، پولیس ، آرمی ، کسٹوڈین جموں، محکمہ دیہی ترقی ، محکمہ تعمیرات عامہ ، ملٹری انجینئرنگ اور دیگر محکمے شامل ہیں جبکہ میراں جاگیر نامی گائوں میں 65کنال اراضی پر محیط مقبرہ کو بھی نہیں بخشا گیا ہے اور وہاں پر بھی محکمہ تعلیم نے غیر قانونی طور پر سکولی عمارات کی تعمیر شروع کی ہے۔ آرایس پورہ تحصیل میں مقامی باشندوں نے 26مقامات پر تقریباً25قبرستانوں اور مساجد کے احاطوں سمیت قابل کاشت اراضی پر غیر قانونی قبضہ جما لیا ہے اور یہ اراضی سینکڑوں کنال پر محیط ہے۔جبکہ اسی تحصیل میں 16مقامات پر محکمہ تعلیم نے سکولوں کے قیام کی غرض سے تقریباً101کنال 19مرلہ اراضی کو اپنے نرغے میں لایا ہے۔ اسی طرح محکمہ آبپاشی نے بھی اس ’کار خیر ‘میں پیچھے نہ رہنے کی قسم کھاتے ہوئے ٹیوب ویل اور دیگر تعمیراتی ڈھانچے کھڑا کرنے کے نام پر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے تقریباً27کنال 1مرلہ اراضی پر نا جائز قبضہ جما رکھا ہے جبکہ آر ایس پورہ میں ہی فوج نے4مقامات جن میں خیرا، بن سلطان ، بڑیال برہنما ، گرانی شامل ہیں ،میںتقریباً102کنال اراضی کو غیر قانونی طور اپنے تصرف میں لے رکھا ہے۔ آر ایس پورہ میں ہی تعمیرات عامہ ، آبپاشی و انسداد سیلاب ، محکموں نے 30کنال 6مرلہ اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ جموں صوبہ کے ہی پونچھ ضلع میں محکمہ دفاع حکومت ہند نے حویلی ، گول پور ، جالوس ، سلاتری ، کھنتیر ، سموت ، کوٹا ، ساگر ، منکوٹ ، بسونی ، بالا کوٹ اور دھروٹی میں 465کنال 18مرلہ اراضی پر نا جائز طور قبضہ جما رکھا ہے ۔ پونچھ ہیلی پیڈ،جو وقف کی املاک ہے، پر نا جائز طور پر قبضہ ہے جبکہ بالاکوٹ میں تقریباً50کنال قبرستان پر فوج کا قبضہ ہے۔
 ان اعدادوشمار سے واضح ہوجاتا ہے کہ صوبہ جموں میں وقف املاک ،چاہئے وہ اراضی ہوں ،یا عمارات ،کافی حد تک غیر قانونی قبضے میں ہیں اور المیہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے قبرستانوں اور مساجد تک کو نہیں بخشا نہیں گیااور جب قبضہ کرنے والوں کی تفاصیل معلوم کی جاتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کام خودسرکاری محکموں اور فورسز ایجنسیوں کی ہی کارستانی ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ غیر قانونی طور زیر تصرف وقف املاک کے مالکانہ حقوق قبضہ گزاروں کے نام کرنے کیلئے روشنی سکیم کا اطلاق عمل میں لایا گیا اور نرخ نامے بھی مقرر کئے گئے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وقف اراضی یا املاک کو اس طرح ذاتی تصرف میں لانے کی کوئی قانونی جوازیت ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب وقف اراضی پر دوسرے فرقہ کے لوگ قبضہ جمائے بیٹھے ہوں۔
اب جبکہ لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ جموں میں سرکاری و جنگلاتی اراضی سے ناجائز قبضہ چھڑانے کی مہم شروع کرچکی ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ارباب اقتدار وقف املاک کی بازیابی کی جانب بھی خصوصی توجہ دیتے ہوئے پورے جموں صوبہ میں بھی وقف املاک کی بندر بانٹ کا سلسلہ روکنے میں ذاتی دلچسپی لیکر اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ صوبہ جموں میں وقف املاک کو ناجائز قابضین سے چھڑایا جائے تاکہ اس اراضی کا بہتر استعمال یقینی بن سکے ۔لیفٹنٹ گورنر ،چونکہ سیاسی مجبوریوںومصلحتوںسے بالاتر ہیں ،اس لئے اُن سے زیادہ توقعات وابستہ ہیں اور اُن کیلئے بھی یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ عوام کی امیدوںپر کھرا اتر کردہائیوں سے لٹکتے آرہے اس سنگین معاملہ کو حل کریں گے۔