واعظین، سوشل میڈیا اور انتشار | غلط بیانیوںاور منفی مواد سے انسانی ذہن زہر آلود بن رہے ہیں فکر و ادراک

میر امتیاز آفریں
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایک طرف تو تبلیغ دین کے نئے راستے کھل گئے ہیں مگر اس سے جڑی آفات نے بھی نئے فتنوں کو جنم دیا ہے۔ کل جب خطیب مسجد کے ممبر سے اُترتا تھا تو اس کی زہرآلود تقریر صرف اس محلے یا بستی کو زہر آلود کرتی تھی اور اس کو ہم کنٹرول کرسکتے تھے، برداشت کرسکتے تھے، اسلئے کہ ہمارے درمیان اچھی تقریر کرنے والے بھی موجود تھے مگر آج یہ ہو رہا ہے کہ خطیبِ مسجد کا ممبر سے اُترنے سے پہلے اس کا ویڈیو یوٹیوب، فیس بک، واٹس اپ اور انسٹاگرام پر آجاتا ہے اور اس کو نہ صرف ہزاروں لاکھوں لوگ دیکھتے اور سنتے ہیں بلکہ اس پر اپنے تاثرات دیتے ہیں، لائیک کرتے ہیں اور شئیر بھی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی حیرت انگیز رسائی نے معلومات (information) کے فروغ میں آسانیاں پیدا کردی ہیں۔ عام طور پر چونکہ شر کی جانب انسانوں کا میلان زیادہ ہوتا ہے، اس لئے سوشل میڈیا کے منفی اثرات نے پورے سماج کو اپنے لپیٹے میں لے لیا ہے۔ انتشار اور بے راہروی کے اس دور میں سیدھی راہ پر قائم و دائم رہنا اور خیر و شر کے درمیان امتیاز کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ کل تک جو بین المسالک متنازعہ اور ایک دوسرے کے خلاف لٹریچر اور مواد عوام کی دسترس سے باہر تھا، آج وہ موبائل فون کے ذریعے ہر آدمی کے ہاتھوں میں آگیا ہے، جس سے عدم برداشت اور مذہبی انتشار ایک نئی خوفناک صورت اختیار کرچکا ہے۔ کچھ گروہوں نے باہمی اختلافات کو ہوا دے کر تکفیری رویہ اختیار کر لیا ہے ۔
انٹرنیٹ پر معاندانہ اور متشددانہ لٹریچر کی بہتات نے نئی نسل کی ذہن سازی میں ایک خطرناک رول انجام دیا ہے، جس کے اثرات ہم چاروں طرف محسوس کرتے ہیں۔
کچھ خطباء نے مقبولیت اور fan following کے بل بوتے پر چھوٹے چھوٹے مذہبی گروہ (cult) قائم کر لئے ہیں اور لوگ ان کی اندھا دُھند پیروی کرتے جارہے ہیں۔اپنی انفرادی پہچان (individual identity) اور اثر و رسوخ کی وجہ سے وہ کبھی کبھار خود کو دینی ضابطوں سے بھی مستثنٰی سمجھنے لگ جاتے ہیں اور من مانی تاویلات کرتے ہوئے اپنی ‘عالمانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لئے دن رات سوشل میڈیا پر لگے رہتے ہیں،اپنے مخالفین کی تحقیر کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف آگ اگلتے رہتے ہیں، کفر و ضلالت کے فتوے جھاڑتے رہتے ہیں، بد زبانی کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مناظروں اور مجادلوں کے چیلینج دیتے رہتے ہیں، جس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے پیچھے لگ جاتی ہے۔
کچھ خطباء identity crisis کے شکار ہونے کی وجہ سے بر سرِ منبر عجیب قسم کے کرتب دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ان کا حدف یہ ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی بات یا حرکت کی جائے جو باقی لوگوں سے الگ ہو اور لوگوں کو حیرت اور اچنبے میں ڈالنے والی ہو، تاکہ وہ سوشل میڈیا پر وائرل (viral)ہوکر لوگوں کا دھیان اپنی طرف کھینچ سکیں۔ بد قسمتی سے سوشل میڈیا پر اس قسم کا منفی مواد جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتا ہے اور اس طرح سے لوگوں کے ذہنوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ وہ کبھی فیسبک اور واٹس اَپ پر اپنے پوسٹرز ڈالتے ہیں، اپنے ناموں کے ساتھ بڑے بڑے القابات جوڑتے ہیں اور یوں خود کو ایک public figure بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عام طور پر دو قسم کے ردعمل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کے دامِ فریب میں پھنس کر ان کے cult میں شامل ہو کر ان کے ذہنی غلام بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ ناقد بن کر تمام دینی شخصیات سے ہی بدظن ہوجاتے ہیں اور دونوں صورتوں میں دین کا ہی نقصان ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ اس قسم کے خطباء کے بیانات اور کرتبوں کو نظر انداز کیا جاتا تاکہ ان کے سفلی عزائم اپنی موت آپ مرجاتے مگر بدقسمتی سے انہیں غیر ضروری اہمیت دی جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے خلائق کا ایک ہجوم ان کے پیچھے لگ جاتا ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج کل سوشل میڈیا پر شور ہے، مناظرے ہیں،کفروشرک کے فتوے ہیں، نعرہ بازیاں ہیں،خطابت کی رنگینیاں ہیں،لب و لہجہ کی گرم جوشی ہے، لوگوں کو حیرت میں ڈالنے والے کرتب ہیں اور ہم قافیہ الفاظ کی روانی اور جولانی ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر اہلِ حق کی بھی صدائیں ہیں مگر ان کی آوازیں اس شور میں غائب ہوکر رہ گئی ہیں۔ انہیں وہ coverage اور viewership نہیں ملتی جو انہیں ملنی چاہئے۔ سوشل میڈیا پر دیکھا گیا ہے کہ مثبت کے بجائے منفی مواد کو زیادہ viewership ملتی ہے ،اس لئے آج کل ایسا لگتا ہے کہ ملت کا درد رکھنے والے علماء و مبلغین نظروں سے اوجھل ہیں اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والے واعظوں کی ایک فوج تیار ہوگئی ہے، جنہوں نے وحدت اُمّت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔
عام لوگ چونکہ دینی رہنمائی کے لئے علماء و خطباء کی طرف ہی رخ کرتے ہیں اور ان کو ہی معیار سمجھتے ہیں، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء و خطباء بھی اپنی منصبی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خلوص و تقوٰی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں۔جب تک دینی رہنماؤں میں تقوٰی اور خلوص کا فقدان رہے گا، ملت کی کشتی یوں ہی ہچکولے کھاتی رہے گی۔
اللہ سے یہی دعا ہے کہ وہ ہم سب کو سیدھی راہ دکھائے اور اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

[email protected]