نظمیں

ملے ہیں راہ میں لیکن

ملے ہیں راہ میں لیکن عذاب کی مانند
ہوا ملن بھی تو اک موج آب کی مانند
شکستہ خواب نگاہوں میں لے کے چلتا ہوں
یہ خواب ہونے لگے ہیں سراب کی مانند
وہ تیز و تند سمندر میں پھیلتا ہی گیا
اسے سکون ملا اضطراب کی مانند
وہ آگ ہو کہ ہو شبنم کوئی بھی فرق نہیں
میرا وجود ہے یارو گلاب کی مانند
رُخِ زمانہ پھرے گا ہماری سمت تو کیوں
ہمارا ضرب بھی ہوگا کتاب کی مانند
نہ عکسِ شرم ہے باقی نہ کوئی موجِ حیاء
چلی ہیں شوخ ہوائیں شراب کی مانند
پرانی راتوں کا ہر رنگ ہو گیا دھندلا
تمام خواب ہوئے اب تو خواب کی مانند
نسیم یہ بھی بہت ہے کہ اس نے یاد کیا
کتاب شوقِ میں اک انتساب کی مانند

ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی
موبائل نمبر؛7006437393

اے غمِ دل کیا کروں
ہر کسی کی زندگی کو منحرف ہوں دیکھتا
ہر کوئی ہے آبلہ پا جس طرف ہوں دیکھتا
اس زمانے کو میاں میں کم ظرف ہوں دیکھتا
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں
دل کی بستی ہو گئی آباد بھی ویران بھی
ہیں مکیں گھر کے سبھی انسان بھی حیوان بھی
رات ڈر ڈر کے گزاری ، دن ہوا پیکان بھی
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں
ہم نے دیکھے چاند تارے قید ہیں زنجیر میں
ہر کسی نے کی کسی کی مدح تھی تقریر میں
کھوٹ تھی تفسیر میں، تدبیر میں،تاثیر میں
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں
کیا کروں میں، لڑ پڑوں میں یا پلٹ کے دوں جواب
چاہتا ہوں تختہءِ مقتل اُلٹ کے دوں جواب
دار پر اے شہ نشیں ہوں آج ہٹ کے دوں جواب
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں
بے زباں تھے، با زباں ہو ، کم ظرف پیدا نہیں
آ چلی ہے مشرق و مغرب سے کوئی وا نہیں
دل کے شعلوں کو بڑھکنے آج دیتے کیا نہیں
اے غمِ دل کیا کروں ، اے وحشتِ دل کیا کروں

یاورؔ احمد ڈار
بڈکوٗٹ ہندوارہ،[email protected]

مشورہ

بول نہیں سکتے تو اشارہ کیجئے
آنکھوں سے یوں ہی مارا کیجئے

اطفال سی شرارت ہے! جچتی ہے
اسے اور بھی آپ پیارا کیجئے

ہم یہ بازی کبھی جیت نہیں پائے
چلو! آپ تو کبھی ہارا کیجئے

بے منزل لہروں نے اُجاڑدی بستیاں
ایسے دریاوں سے کنارہ کیجئے

اور بھی لفظ ہیں شمشاد کے یہاں
آپ اتنے سے گزارہ کیجئے

شاہد شمشاد کمہار
خوشی پورہ، ایچ ایم ٹی، سرینگر

 

 

قطعات

ہم جفا نہیں کرتے وہ وفا نہیں کرتے
حق ادائیگی کا ہم حق ادا نہیں کرتے
میں عشق میں سودوزیاں کا قائل نہیں ہوں
عاشق ہوں نتیجے کی پرواہ نہیں کرتے

مجھ سے ملنے کی اس نے کبھی ٹھانی ہی نہیں
میری روداد حیات اس نے کبھی جانی ہی نہیں
دل میں اٹھی خواہشوں کے سر کچلے ہے میں نے
میرے فسانے میں جیسے کوئی کہانی ہی نہیں

خوشنویس میر مشتاق
ایسو، اننت ناگ کشمیر
[email protected]