نظمیں

آہ ! اے مزدور
آہ ! اے مزدور محنت کش جِیالے سخت جاں
خون کے آنسو رُلاتی ہے تمہاری داستاں
تم تلاشِ رِزق میں رہتے ہو پیہم گامزن
تم بِچھاتے اوڑھتے رہتے ہو محنت اور تھکن
گردشِ حالات سے دو چار ہوتے رہتے ہو
مُشکلوں سے بَر سرِ پَیکار ہوتے رہتے ہو
ٹھوکریں کھاتے ہو گِرتے اور سنبھلتے رہتے ہو
وقت کی پُر پیچ و خم راہوں پہ چلتے رہتے ہو
شام سے ہی تم خیال و فِکر میں کھو جاتے ہو
رات کو خاکے بنا کر خوابوں کے سو جاتے ہو
صُبح ہوتے ہی ضرورت سَر اُٹھانے لگتی ہے
یاد ذِمّہ داریوں کی تمکو آنے لگتی ہے
صُبح سے تم دوپہر اور شام کرتے رہتے ہو
ٹُوٹ کر جی جان سے تم کام کرتے رہتے ہو
اُف ! تمہارے بال بچّے پھر بھی بھُوکے ننگے ہیں
کھیل قِسمت نے تمہارے ساتھ کیسے کھیلے ہیں
دُھوپ کی حِدّت بِھگوئے ہے سُکھائے ہے ہَوا
ہے کڑی محنت مشقّت سے تمہارا سامنا
کَل تمہارا حال جیسا تھا ہے ویسا آج بھی
اِنتظار اچّھے دِنوں کا تم کو رہتا آج بھی
مُلک کی تعمیر میں بے شک تمہارا رول ہے
اہمیت پھر بھی تمہاری کوڑیوں کے مول ہے
دیکھ کر حالت تمہاری ذہن و دِل ہیں بے قرار
کیوں نظر آتا نہیں کوئی تمہارا غم گُسار
دیکھ کر دیکھا نہیں جاتا تمہارا حال اُف !
پیڑ سے جیسے اُدھیڑی جائے کچّی چھال اُف !
کَل تلک سوچا نہیں جو سوچنا ہے تمکو آج
ناگُزیر اب ہو گیا ہے اِنحراف و احتجاج
بے خبر جو تھے تمہارے حال سے ہیں با خبر
اور ہوتی ہے سیاست بھی تمہارے نام پر
تم سے ہمدردی جتانے کی لگی ہے ہوڑ سی
تم کو اپنوں سے مِلانے کی لگی ہے ہوڑ سی
یہ مقولہ دیر سے اکثر سمجھ میں آتا ہے
مانگنے سے حق نہیں مِلتا تو چھینا جاتا ہے
پاؤںمیںپڑ جائیں چھالے یا ہو جائیں بازو شل
پھر بھی کہتی رہتی ہے ہِمّت تمہاری چل چلا چل
ہو کوئی رُت کوئی موسم کام سے ہے تمکو کام
اے مِرے مزدور ساتھی تم کو کرتا ہُوں سلام

نیاز جَیراجپُوری
جالندھری ، اعظم گڑھ (یُو۔پی۔)
موبائل نمبر؛9452505605

معترف تیرا بھی ہوں
(بہ نذر بھائی جاوید آذرؔؔ)

میں گہہ دشت و دمن گا ہے کبھی صحرا بھی ہوں
درمیانِ خُشک و تر میں بحر اِک گہرا بھی ہوں

یُوں تغافل سے کیا کرتا ہوں اکثر اِجتناب
ہُوں کبھی شیطاں کا ہمسر اور کبھی تیرا بھی ہُوں

دیدنی دیدار تیرا ہے تجھے دیکھا نہیں
سُن کے یہ توصیف تیری ہوگیا بہرا بھی ہُوں

مہر ومہ مظہر ہیں تیرے حُسنِ لافانی کے دوست
میں زمیں پہ صورتِ یُوسفؔ مگر چہرا بھی ہوں

ہے ملی میراث میں مُجھ کو اگر تاباں جبیں
اپنے تالع کا میں لیکن آپ اندھیرا بھی ہُوں

مار دیگی مجھ کو میرے صحت کی پھیکی ہوا
میں نسیمِ سحر کا ازلناً مگر ڈیرا بھی ہُوں

میں وفُورِ شوق میں کچھ کھا گیا جاوید ؔبھائی
اِس جہانِ رنگ و بُو میں معترف تیرا بھی ہُوں

عشاق کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند)شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469

 

قطعات
بہر صورت موسم سنبھل ہی جائے گا
یہ عالم امروز بھی بدل ہی جائے گا
کوئی ارمان نہیں نکلا رہنے بھی دو
یہ دم رُکتا نہیں نکل ہی جائے گا

وہ آئے گھر میں میرے اچھا شگون تھا
ہو کے رہے گا میرا یہ اک جنون تھا
صندل کے اس مکان میں گھر لُٹ گیا میرا
کٹیا میں رہ کے دوستو کتنا سکون تھا

مانگی تھی لمبی عمر کی کیوں دعا میں نے
نادان تھا مانگ لی تھی ایسی سزا میں نے
اُن سے کبھی بھی اچھا بن ہی نہ پایا ہوں میں
سمجھا تھا جن کو یارو بہت ہی بُرا میں نے

سعید احمد سعید
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380