نظمیں

مرنے کے بعد ساتھ کچھ سرمایا نہیں جاتا

معلم سے اب متعلم کو یہ سکھلایا نہیں جاتا
شیریں دہن شیریں کلام اپنے بنایا نہیں جاتا
معلوم ہے سب کو کہ خُدا ایک ہے سب کا
دانستہ اُسے یہ مگر بتلایا نہیں جاتا
دنیا بے ثبات ہے دریوزہ گر کا گھر
ٹوٹا جو یہ آئینہ تو پھر جُڑایا نہیں جاتا
تاریخ رقم خود بخود ہوتی ہے یہاں روز
جو نقش لفظ اس میں ہُو وہ مٹایا نہیں جاتا
بستے تھے لوگ تب بھی جب دورِ شدادؔ تھا
’’ڈوزر‘‘ سے گھر اُس دور میں گرایا نہیں جاتا
جو تجھ کو دیا رب نے سب کو دیا ہے
میزانِ فیض خود بخود بھڑایا نہیں جاتا
اللہ! کے گھر میں دیر ہے اندھیرا نہیں ہے
مرنے کے بعد ساتھ کچھ سرمایا نہیں جاتا
ہوگا عُشاقؔ ختم کب بہ خودسری دور
جمہور میں اقوام کو لڑایا نہیں جاتا

عُشاقؔ کشتواڑی
کشتواڑ،موبائل نمبر؛969724469

مزاحیہ نظم
مجھ کو انگلش والے چہرے کی لالیاں اچھی لگیں
اور افریقہ گیا تو کالیاں اچھی لگیں
یار کی بیگم تو مانو مال اپنا ہے میاں
یار کے سسرال کی سب سالیاں اچھی لگیں
جب پڑوسن آئی چھت پر آنکھ میں نے مار دی
اس کی تگڑی اور موٹی گالیاں اچھی لگیں
دو بڑے جھمکے لگا کر تھی میری بیوی کھڑی
نوکرانی کی مجھے پر بالیاں اچھی لگیں
یوں تو محفل میں تھی واہ واہ میرے ہر اک شعر پر
اک حسینہ تھی کہ جس کی تالیاں اچھی لگیں
ہم شفا خانے گئے تو بس وہیں کے رہ گئے
ہر نرس تتلی سی واں، دل والیاں اچھی لگیں
عورتیں کچھ بعد شادی کے بھی کرتی ہیں فلیرٹ
فیس بک پر وہ سبھی مت والیاں اچھی لگیں
دید کی راہوں میں حائل آج کل دیوار ہے
جن سے دِکھتی ہو پڑوسن جالیاں اچھی لگیں
کرسیاں محفل کی خوش ہیں لڑکیوں کے بار سے
رنگ بَرنگی پھولوں کی یہ ڈالیاں اچھی لگیں
اس فلکؔ جی نے کزن کو ہے پٹایا پیار سے
کرکے شادی ہم نے اُن کو پالیا اچھی لگیں

فلک ریاض
حسینی کالونی چھتر گام،کشمیر
،[email protected]

بے کسی

تیرے شانون پہ سر رکھ کے
دبی سرگوشیوں میں
تمہارے کان میں جاناں
مجھے اک بات کہنی ہے۔
ضروری تو نہیں لیکن
ضروری ہی سمجھ لینا۔
مجھے تم اچھی لگتی ہو
تیرے صورت
تیری آنکھیں
سراپا اِک قیامت ہے۔
تیرا چہرہ ہے جیسے نیم شب کا ضوفشاں تارا
تیرے باتیں ہیں گویا برشگال کی گرتی ہوئی بوندیں
تمہاری چال جیسے صبحدم باد صبا لاشک
مجھے تم اچھی لگتی ہو
ہماری آنکھ میں ہے بس تمہارے حُسن کا پیکر
میں کہہ دیتا دل مضطر کی بیتابی
مگر جسے پایا نہیں اب تک
اُسے کھونے سے ڈرتا ہوں
نذر ہونے سے ڈرتا ہوں
تمہاری جھیل آنکھوں میں
اُترنا چاہتا ہوں
میں بہت دیر تیرے ساتھ رہنا چاہتا ہوں

مرزا ارشاد منیب
بیروہ بڑگام
موبائل نمبر؛7889447533

قطعات
یہ سلسلہ میری تنہائی کا گزر نہ سکا
میں اپنے ساتھ بہت دیر تک ٹھہر نہ سکا
جڑا ہے میرے دل کا تعلق زبان سے میری
میں اپنی بات سے ہرگز کبھی مُکر نہ سکا

نظر میں تشنگی چراغِ محفل بُجھے بُجھے ہیں
میکدے کا یہ عالم جام خالی خالی پڑے ہیں
میں منتظر ہوں نئے حادثوں کا پھر بھی سعیدؔ
میرے تعاقب میں پرانی یادوں کے سلسلے ہیں

خزاں میں بہار کی خواہش نادان کرتے ہیں
قریب مرگ کے زیست کا سامان کرتے ہیں
چمن کس کے لہو سے تازہ ،بلبل جانتا ہے
محبت کاغذی پھولوں سے انجان کرتے ہیں

سعید احمد سعیدؔ
احمد نگر سرینگر
موبائل نمبر؛9906726380

قطعات
جب خدا مہربان ہوتا ہے
ذرہ بھی تب آسمان ہوتا ہے
عمر بڑھتی ہے تو آئے سوچ میں وسعت
جلتا سورج بھی سائیبان ہوتا ہے

آج لوگوں کے اطوار ہیں کتنے نرالے
زبان پہ اللہ ہے اور بغل میں بھالے
چہرے ہیں کتنے صاف اور اُجلے اُجلے
پر دل تو اُنکے ہیں گندے اور کالے

ذاتوں اور گوٹوں سے نہیں کوئی برتری
تقویٰ ہی فقط ہے یہاں میعار سروری
پہچان کی بابت جو بناتے ہیں قبیلے
آخر میں پتہ چلتا ہے یہ سب ہے ابتری

غلام نبی نیئرؔ
کولگام ، کشمیر
موبائل نمبر؛9596047612