نظمیں

بہ آمدِ سالِ نو
ہو صورتاً وہ سیرتناً نیا سال مُبارک
مزاجِ نوٗ اس کا اور تال مبارک
ہونے لگا ہے آج سے اب آغاز جنوری
ماہ دسمبر تلک ہو اِسکی چال مُبارک

ہم ہندیوں کو ہے نہیں فقط ہندوستان کی فکر
قلب و جگر میں رکھتے ہم سارے جہاں کی فکر
کیا ہندیوں کو صف یہ بخشا ہے ذات نے
زیر خیال رکھتے ہیں ہم جنسِ گراں کی فکر

رکھتا ہے وقت منفرد عالم میں تان ہے
دستِ یزل میں اسکی مگر رہتی کمان ہے
کرتے ہیں اسکے سائے میں کارِ حیات سب
محتاج اسکے حُکم کا لیکن پیروجوان ہے

ہوتی ہے میاں وقت کی بھی موت مُقرر
جلتی ہے وقتِ سحر تک اسکی جوت مُقرر
بعد از گُذر کون بھلا رکھتا ہے اِسے یاد
رکھتا ہے مگر وقت اپنی ’’ہوت‘‘ مقرر

سالِ رفتہ گوکہ اب بے دم ہوا
سالِ نوٗ کے رُوبہ رُو یہ خم ہوا
کِس لئے خوشیاں مناتے ہو میاں
سال اپنی عُمر کا ہی کم ہُوا

عشاق کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469

سالِ رفتہ الوداع
سالِ نو خوش آمدید!
کھٹی میٹھی یادیں چھوڑ کر وداع ہوا بائیس
کاندھے اپنے اُچکا کر اب آیا ہے تیئس
ہنستے ہنستے ہوا ہے رخصت یہاں سے کیا بائیس
جاتے جاتے ہم کو دے گیا کووڈ کی ہے ٹیس
شبہ نہیں اس میں یہ سال تھا کچھ کھٹا میٹھا
آدم زاد بہت کچھ سہتے اُٹھا اور بیٹھا
سال نیا اللہ کرے اب لائے کچھ خوشحالی
ہر اک کی تقدیر میں ہو کچھ چین اور فارغ البالی
کِھلے سدا ہر شخص کی خاطر گلشنِ ہستی کایہ چمن
ہر سُو مہک اُٹھیں ہمارے کوہ، دشت و دمن
لائے سال نیا ہر ایک کی خاطر ترقی کی نوید
اس اُمید سے کرتے ہیں ہم اسکو خوش آمدید
نیئرؔ آج ہے انسانیت کے لئے دست بدعا
یا ربّ پوری کردے ہر کسی کا دِلّی مدعا

غلام نبی نیئرؔ
کولگام کشمیر
موبائل نمبر؛9541547612

 

اُس کے نخرے
وہ یار نخرے ہزار کرتی ہے
شاید ہی مجھ سے پیار کرتی ہے
کبھی چوڑی کبھی کہتی کپڑے دلاؤ
رُخ بازار کا بار بار کرتی ہے
بلاؤں ملنے کو اکیلے میں اُسے
تو پھر وہ بہانے چار کرتی ہے
کبھی لہنگے کبھی جوتیوں کی فرمائش
مجھے وہ لُوٹنے کا کاروبار کرتی ہے
ڈانٹ دو ذرا تو رس جائیگی
بہت نخرے وہ یار کرتی ہے
کہتی ہے بائیک پر بٹھا کر گھماؤ
نہ کروں تو آنکھیں اشکبار کرتی ہے
میری ہر لغزش پر وہ فیضیؔ یار
چھوٹی چنگاری کو نار کرتی ہے

فیضان فیضی
بھیونڈی مہاراشٹرا
موبائل نمبر؛7385851695

دارِ فانی
رنج و الم کا ٹھکانہ ہے
چند لمحات تیرے
میرے حصے میں
یہ دارِ فانی ہے
کشمکش میں مبتلا
زندگی ۔۔۔۔۔۔
ابنِ آدم کو نہیں ہے اختیار
اپنی مرضی سے
جینے کا ۔۔۔۔۔۔
اپنی مرضی سے جینے کی بھی
آرزو جس نے کی۔۔۔۔
بن گیا وہ کُتا دھوبی کا ۔۔۔
کوئی نہیں باقی رہے گا
میرے مالک کے سواء
وہ خالق حقیقی
جس سے ہم سب نے
وعدہ کیا ۔۔۔۔۔
قَالُو بلا کا نعرہ لگایا ۔۔۔۔
وہ رگ جان سے قریب
تر ہے وہ۔۔۔۔۔۔
میں ڈھونڈتا ہوں
اُنکو کہیں اور۔۔۔۔۔
بس منتظر ہوں اُنکی
رحمت جوش میں آئے
دونوں عالم سنور جائیں
میں ان کا ہوجاؤں
وہ میرا ہو جائے
رنج والم مٹ جائے

سبدر شبیر
اوٹو اہربل کولگام،9797008660