نظمیں

دسمبری نظم

گملوں میں اُگائی نظمیں

تھکی تھکی دھوپ انگڑائیاں لے رہی ہے
نڈھال موسم کے آنگن میں
پرندے عریاں شاخوں پہ بیٹھے گزرے موسم پہ بین کرتے ہیں
تم بھی آؤ کچن کا کام ادھورا چھوڑ کے
سوکھے پڑے پتے ہوا سے سرگوشیاں کررہے ہیں
ہم بھی سن لیں ۔۔
شام ہونے تک ہماری سماعتیں بوڑھی ہوجائیں گی
گلدانوں کی مٹی نکال کے رکھ دو
کھلی فضاء میں سانس لے گی
ہمارے بدن کی مٹی بھی اب خشک ہوتی جارہی ہے
گئے موسموں نے ساری نمی چوس لی ہے
یہ پھول کھل کے مرجھاتے کیوں ہیں
ہمیں خود سے سوال پوچھنا چاہئے
گملے صاف کرکے رکھ دو
میں نظموں کا بیج نکال کے رکھتا ہوں
اگلے موسم میں ہم ان گملوں میں نظمیں اگائیں گے
نظمیں، جو کبھی مرجھا نہیں جاتی
سوکھ کر بکھرتی نہیں
بکھر کے فنا نہیں ہوتی
بدلتے موسموں کے ساتھ ہمیں زندہ رہنا ہے
وقت کے گلدانوں میں
رنگ بدلتی نظموں کی طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

علی شیدؔا
نجدون، نیپورہ، اننت ناگ
موبائل نمبر؛9419045087

ماں کی عظمت
اپنی حالت دیکھ کر آنسو بہاؤں کیوں نہ میں
حالِ دل اپنا سبھی کو اب سناؤں کیوں نہ میں
تھا سکوں دل میں بڑا، تھی جب تلک امّاں حیات
چین اب وہ چِھن گیا ہے سچ بتاؤں کیوں نہ میں
رات کو میں لوٹ آتا جب کبھی گھر دیر سے
منتظر ماں کو ہی پاتا یہ بتاؤں کیوں نہ میں
تھا سکون وپیار الفت اور مسرت سے بھرا
خلد صورت گھر کے آخر گیت گاؤں کیوں نہ میں
جب پریشانی کوئی بھی پیش آتی تھی مجھے
سوچتا تھا ماں کو فوراً ہی سناؤں کیوں نہ میں
مجھ کو دیتی تھی دلاسہ ساتھ میں کہتی مجھے
لعل میرے تجھ پہ ہی قربان جاؤں کیوں نہ میں
کر نہ پایا ماں کی خدمت ہے بہت افسوس اب
سر یہ اپنا بس ندامت سے جھکاؤں کیوں نہ میں
ہجر کا غم والدہ کا سہہ نہ پاؤں گا کبھی
اپنے دل میں اس کی صورت ہی بساؤں کیوں نہ میں
ماں کا درجہ ہے بڑا شادابؔ سب کو ہے خبر
چاہتا ہوں یاد پھر سب کو دلاؤں کیوں نہ میں

غلام رسول شادابؔ
مڑواہ (کشتواڑ)
موبائل نمبر؛ 9103196850

بیٹیاں
رونق ہمارے گھرکی بڑھاتی ہیں بیٹیاں
رحمت ہمارے واسطے لاتی ہیں بیٹیاں
آقا نے بیٹیوں کو بلند مرتبہ دیا
ہوں صالحہ تو گھر کوسجاتی ہیں بیٹیاں
فطرت نے ان کی شان کو ایسے بڑھا دیا
صبر و وفا سبق ہے،سکھاتی ہیں بیٹیاں
باقی ہے ان کی ذات سے رونق جہان کی
دنیا کا کام کاج چلاتی ہیں بیٹیاں
بیٹے بھی دل کا چین ہیں رونق گھروں کی ہیں
جنت کا مستحق تو بناتی ہیں بیٹیاں
جب شام کو تھکے ہوئے آتے ہیں والدین
چہروں پہ رونقوں کو سجاتی ہیں بیٹیاں
بیٹی کو دیکھ کے کیوں پشیمان ہے جہاں
بے رزق ہونے سے تو بچاتی ہیں بیٹیاں
ہے ان کے دم سے کائنات کیا سجی ہوئی
دنیا میں سب کی شان بڑھاتی ہیں بیٹیاں
اِن سے بہارِنو ہے اور نکہت و نور ہے
اللہ کے کرم کو پالتی ہیں بیٹیاں
حزن وملال کرتے ہیں نڈھال جب نعیمؔ
بابل کا دیس چھوڑ کے جاتی ہیں بیٹیاں

ڈاکٹر نعیم انساء
بہروٹ، تھنہ منڈی، راجوری