نظمیں

زیست
رہ گئے کچھ کچھ ادھورے کارِ زیست
چلدیئے حسرت لئے یہ بارِ زیست
آنے جانے کا ہے قائم سلسلہ
چند روزہ کا ہے یہ دربارِ زیست
زندگی زاہد ملی اسی (80)برس
کم ہے کیا عشاقؔ یہ مقدارِ زیست
گُل ہوا چاہتی ہے اب شمعٔ حیات
چومنا چاہتی ہے اب یہ دارِ زیست
ہوچکا بوسیدہ اب قصرِ حیات
گرنے کو تیا رہے مینارِ زیست
موت ہی جب زیست کا انجام ہے
کس لئے باندھا تھا پھر دستارِ زیست
مرحومیں کی صف میں جب ہونگے شمار
کون کرتا تجھ سے پھر تکرارِ زیست
پھر نشاطؔ و نورؔ سے ہوگا ملاپ
منتظر ہونگے یہ میرے یارِ زیست
مکتبِ طب میں ہوں اب زیرِ علاج
ہے مدعا بڑھ جائے کچھ مقدارِ زیست
باندھ لو عشاقؔ اب رختِ سفر
ختم ہونے کو ہے اب خمارِ زیست

طالب دعاء
عشاق ؔکشتواڑی
مکتبِ طب۔ جے کے میڈی سٹی جموں
موبائل نمبر؛9697524469

کھویا ہوا دل

عنوان نہیں ہے کچھ لکھنے کو
آنسوں ہجوم میں ہیں بکھر نے کو

یہ باغبان ہے صبح سے تھکا ہوا
یہ گل وکلیاں ہیں اب نکھر نے کو

مجھ سے ہار چکے ہیں میرے جذبات
اب صرف روح ہے وہ بھی نکلنے کو

ہیں ساتھی جان و دل کے بہت قریب
اپنی راہ میں وہ اب سبھی نکلنے کو

وحشت پاچکی ہے میری یہ گلستان وادی
گویا شمشادؔ بھی ہے اب نکلنے کو

شاہد شمشاد کمہار ؔ
خوشی پورہ، ایچ ایم ٹی سرینگر
موبائل نمبر؛9797739676