نظمیں

افسوس !
تمہاری نظروں میں—
میں—
لاکھ دانا و بینا سہی —
لاکھ لفظ و معنی شناس ,زمانہ شناس سہی
لاکھ رمز و چہرہ شناس سہی
مگر —- افسوس !
صد افسوس !!
کہ میں ہی نہیں سمجھ پائی —
میں ہی نہیں جان پائی—-
میں ہی نہیں پہچان پائی —
تمہاری آہ —- کے پیچھے کی وجہ
تمہاری ہنسی کے پیچھے کا دَرد
تمہارے ضبط کے پیچھے کا کَرب
تمہاری خاموشی کے پیچھے —-
حسرت و طلب — !!
تمہاری عجز و انکساری کے پیچھے
تمہارا قَد —-
تُمہاری خوش گفتاری کے پیچھے —- مصلحت
تُمہاری خودداری کے پیچھے — محبت و عقیدت
تمہاری ناراضگی کے پیچھے —- ہمدردی
تمہاری بے چینی کے پیچھے
کی وحشت !”
افسوس ! صد افسوس !!

روبینہ میر
راجوری، جموں کشمیر

قطعات

بارش نے نم کر دیا دل کی زمیں کو
اور کر دیا ہے حسیں، سرابِ حسیں کو
بارش کی بوندھ بوندھ میں واللہ
پاتا ہوں عکسِ روئے نازنیں کو

چشمِ صیاد میں ہیں انجانے بھی
ہم بے جاں سے زخمی دیوانے بھی
وہ جن کے آشیانے بھی مٹ گئے ہیں
پھرتے ہیں جو در بہ در وہ بیگانے بھی

ملتی ہے نظر آہستہ آہستہ
ہوتا ہے اثر آہستہ آہستہ
وہ ظالم مہرباں ہوا کب تھا مگر
ٹوٹا ہے پتھر آہستہ آہستہ

توصیف شہریار
اسلام آباد، کشمیر
[email protected]