نظمیں

دیش گیت
پھر دیش کو سر سبز بنا کیوں نہیں دیتے
تم اس کو لہو میرا پلا کیوں نہیں دیتے

یہ اپنا وطن اپنا وطن اپنا وطن ہے
جاں اس کے لئے اپنی لُٹا کیوں نہیں دیتے

شک جن کو ہے بھارت کے حسیں ہونے پہ ان کو
تم وادیء کشمیر دکھا کیوں نہیں دیتے

بھارت سے محبت مرے ایماں کا ہے حصہ
یہ بات زمانے کو بتا کیوں نہیں دیتے

جو آنکھ دکھاتا ہے مرے پیارے وطن کو
اس شخص کی ہستی کو مٹا کیوں نہیں دیتے

یہ دیش ہمارا ہے ہمارا ہے ہمارا
جان اس کے تحفظ میں لُٹا کیوں نہیں دیتے

نفرت کی ہے آلودگی جن سینوں میں ’’زاہد‘‘
اک پیڑ محبت کا لگا کیوں نہیں دیتے

محمد زاہد رضا بنارسی
دارالعلوم حبیبیہ رضویہ گوہی گنج،
بھدوہی۔بھارت

نظم
پھر —– اُس کے بعد
کوئی حادثہ
مجھے نہیں لگا —–
حادثہ —
وہ — ایک حادثہ !!
جو پیش آیا تھا
مجھے— زندگی کے سفر میں
دفعتاً —–
جس نے —-
میرے زہن و قلب پہ
لگاٰئی تھی
گہری ضَرب !!
پھر —- اُس کے بعد
کوئی جھٹکا —-
نہیں لگا مجھے
زلزلے جیسا جھٹکا —-
وہ ایک شدید جھٹکا — !!
جس نے —-
میرے پاؤں تلے سے
ہلا دی تھی زمین !!

روبینہ میر ،راجوری جموں کشمیر