نظمیں

بیادِ مشتاقؔ کاشمیریؒ

تری یاد مجھ کو ستائے گی ہر دم
میرے دل کی دھڑکن، میرے دل کی دھڑکین
میں کیسے بُھلا دوں تیرا نقشِ اَحسن
میرے دل کے مامن، میرے دل کے مامن
تجھے عشقِ احمدؐ کی حاصل تھی ثروت
محبت کے گُلشن، محبت کے گُلشن
رفاقت تیری مجھ پہ انعامِ رحمٰن
شرافت کے مسکن، شرافت کے مسکن
ملاحت عجب تھی تیری گفتگو میں
عزیمت کے درپن، عزیمت کے درپن
تیرے نعت گوئی کے چرچے فلک پر
لیاقت کے مخزن، لیاقت کےمخزن
رفاقت تیری مجھ پر رحمت خداکی
شرافت کے مسکن، شرافت کے مسکن
کبھی بھی نہ چُھوٹا ہے تجھ سے اے مشتاقؔ
محمدؐ کا دامن، محمدؐ کا دامن
تجھے زیرِ مدفن بھی حاصل ہو اب کے
محمدؐ کا درشن، محمدؐ کا درشن

طفیل ؔشفیع
گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر
موبائل نمبر؛6006081653

خوابوں کا گواہ کوئی نہیں
وہ ایک خواب
جو تُم نے سجا رکھا تھا
اپنی آنکھوں میں۔
جو تُم نے دیکھا تھا
کھلی آنکھوں سے
جس کی تعبیر کا
تمہیں تھا ۔۔۔شِدت سے انتظار۔
جس کی تعبیر پانے کو
تُم تھے بیقرار۔
جس کو حقیقت میں
بدلنے کا تھا
تمہارا شوق و جنون
وہ کانچ کا خواب تھا
جو ٹوٹ کر بکھر گیا
ایسے، جیسےبکھر جاتا ہے
شیشہ ٹوٹنے پرٹُکڑوں میں۔
جس کی پرچھائیاں
ہو جاتی ہیں تقسیم ریزوں میں۔۔۔
وہ ایک خواب
جس کو پال رہے تھےتُم بہت ارمانوں سے
اپنے دل و دماغ کے نہاں خانے میں ۔
تُمہارے آنکھ مُوندتے ہی
ٹوٹ کر ہو گیا چُور ،چُور !!
جس کی تعبیر ہوئی
حَسرت و غم ۔۔۔!!
اُس تمہارے خواب کے
ٹوٹتے ،بکھرتے ،ذرے
جو میری آنکھوں میں پڑے
لہو رُلوا گئے مجھے ۔۔۔!
وہ ایک خواب ۔۔۔ کانچ کا !!
ٹوٹ کر بکھر گیا اور کرچیاں جگہ ،
جگہ بکھریں کرچیاں چننے پر
لہو لہان کر گئی !!
میرے اعصاب۔۔۔
وہ ایک خواب۔۔۔
ٹوٹتے ،بِکھرتے یہ کہتا گیا ۔۔۔
’’ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں ‘‘
خوابوں کا گواہ کوئی نہیں

روبینہ میر
راجوری، جموں کشمیر

اک روز ہمیں گھر جانا ہے

ایک روز ہمیں گھر جانا ہے
انسان تمہیں مر جا نا ہے
پھر ناز و نعمت کیا کرتے
رنگین ادا پے کیوں مرتے
اخلاص پہ آئو مر جائیں
منقول کو صادق کر جائیں
یہ مال غنیمت سمجھے ہو!!
افسوس حقیقت سمجھے ہو
سب خاک میں مل ہی جائیگا
اعمال کا بدلہ پائے گا
شمشیر بکف اب ہونا ہے
باطل کو ہرا کر جانا ہے
شب تار میں آنکھیں کھولیں گے
ہم ورد کریں گے بولیں گے
ہے فکر تمہیں مال و زر کی
جب آن نہ ہو بحر و بر کی
غم ناک ہماری دھرتی ہے
یہ دنیا اسی پے مرتی ہے
ہے غور طلب اب سن لو تم
بے باک قلب ہی چن لو تم
دن رات پڑو فکر فردا
اس کنج قفس میں با کعبہ
اب آنکھ کھلی ہے کیوں سوئیں
تا زندگی ہم پھر کیوں روئیں
ہم جان کی بازی کھیلیں گے
اب دکھ نہ کوئی ہم جھیلیں گے
اے شہر خموشاں کے لوگو
انجام کو پہنچے اب روکو
اک روز ہمیں گھر جانا ہے
انسان تمہیں مر جا نا ہے

یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

میں اور مُنکر‎‎
کہتا ہے وہ خدا نہیں ہے
میں کہتا ہوں ارے یہی ہے
کہتا ہے وہ ذرا دِکھاوئو
میں کہتا ہوں عقل لڑاوئو
کہتا ہے وہ تم ہو جُھوٹے
میں کہتا ہوں تم ہو ٹُوٹے
وہ کہتا ہے نہیں ہے اللہ
میں کہتا ہوں یہیں پہ وللہ
وہ کہتا ہے کہاں ہے بولو
میں کہتا ہوں آنکھیں کھولو
وہ کہتا ہے کوئی نِشانی
میں کہتا ہوں بے رنگ پانی
وہ کہتا ہے زمیں بنی خود
میں نے بولا گئی ہے سدُھ بدُ
اس نے جھاڑا بڑا سا لیکچر
میں بس بولا بنادو مچھر ؟
اُس کی تھی “بگِ بینگ ” کہانی
پاس میرے ہر ایک نشانی
کرنا پایا مجھ کو مائل
اندر سے تھا میرا قائل
خود جو ڈھوبے ملے نہ ساحل
سچ کے آگے ٹِکے نہ جاہل

فلک ریاض
حسینی کالونی چھتر گام،چاڈورہ بڈگام
[email protected]