نظمیں

قطعات

رشکِ لالہ سے جب بھری ہوگی
سوچئے کیا حسیں گھڑی ہوگی
عالمِ بقا کی حقیقت ہے
جان تہہ خاک میں پڑی ہوگی

اِک نظر میں تمہارے ہو بیٹھے
تب سے ہوش و حواس کھو بیٹھے
اس ہجومِ بہار میں اکثر
ہم بھی راز و نیاز کھو بیٹھے

کفِ پا دیکھ لوں میں آج کوئی
رکھوں ٹھوکر میں میں تاج کوئی
بہارِ حُسن نے کب تک وفا کی
نظامِ موت پر ہے راج کوئی

یاور حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛6005929160

قطعات

اُکتا گئے ہیں روز کی نزدیکیوں سے ہم
اِس عشقِ نا مراد کی باریکیوں سے ہم
اے کاش کوئی آکے اب پیغامِ سحر دے
اُلجھے ہوئے ہیں رات کی تاریکیوں سے ہم

مجھ سے ادب کے بارے میں مت پوچھئے حضور
مسند ملی ہے مجھ کو سکہ اُچھال کے
اجداد کی عنایتوں کا اک بھنڈار ہے
رکھا ہے آج تک جسے میں نے سنبھال کے

بشرطِ زندگانی پھر ملیں گے
ہو رب کی مہربانی پھر ملیں گے
غزل کتنی ہی بوڑھی کیوں نہ ہوگی
بہ شکلِ مصرعہ ثانی پھر ملیں گے

غلام رسول ،ایازؔ کشتواڑی
موبائل نمبر؛9906344620

چُھوٹ گئی تھی میری ریل
جب ہوئی چھٹی مدرسہ میں
نکلا باہر میں تو خوشی میں
پہنچا جب میں اسٹیشن ،یار!
آئے مجھ کو سپنے ہزار
مجھ کو کب معلوم تھا
ہوجائے گا سب بے کار
سوچا تھا۔۔ جائونگا گھر
ماں سے ملونگا، لڑوں گا بہن سے
بھائی سے بھی گپ شپ ہوگی
پر جب سپنوں کی ریل آئی
نیلی، نیلی، کالی، پیلی
میں تو سپنوں میں کھویا تھا
ریل رکی اور سیٹی بجائی
دھیرے دھیرے پھر وہ چل دی
نکلا جب میں خوابوںسے
دیکھا، پٹری چھوڑ رہی ہے
میری ریل تو دوڑ رہی ہے
میں بھی پیچھے پیچھے دوڑا
لیکن ہاتھ نہ آیا کچھ اور
ٹوٹ سپنا ‘ بگڑا کھیل
چھوٹ گئی تھی میری ریل

شمس قمر
پنگنور،آندھرا پردیش

پہلی رات
وہ پہلی رات جب چاروں طرف اندھیرا ہوگا
وہ ہمنشیں بھی مٹی کے تنکے ڈال کر ہی
تنہا مجھے دو گز کے اندر رو رو کے توبہ۔۔۔
اپنی منزل پر اور دور جا کے
آپس میں باتیں کرتے جائیں گے
دو گز زمین ہونگے ۔۔۔۔۔۔
اور میں بے بس ہونگا
بے بسی کے عالم میں
وہ سامنے ہونگے
پوچھیں گے وہ فرشتے
لمحہ لمحہ گزرے گا
دن سال کے برابر۔۔۔۔۔!
لمحہ لمحہ بے بسی کا
اور کچھ لمحے باقی اس دار فانی میں
برزخ میں جانا ہوگا ۔۔۔۔۔
کب کس کو کون جانے۔۔۔۔
یہ ہماری کھیتی ہے
جیسے کرنی ویسے بھرنی
کس کو کیا ملے گا۔۔۔۔۔۔
کس ہاتھ میں دینگے
وہ نامہ اعمال
کون جانے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
بس جانتا ہے وہی پیدا کرنے والا۔
اللّٰہ سبحان و تعالیٰ

سبدرؔ شبیر
اوٹو اہربل کولگام،موبائل نمبر 9797008660

 

ذہنِ شاعر کی
صناعی قوم کا کردار ہے
شہر میں اب شاعروں کی جابجا بھر مار ہے
مُنفرد اِن کا ہے قصہ اور پھر کردار ہے
دربدر اِن کو نہ کردے اِن کا ذوقِ شاعری
چھوڑ جوں عشاقؔ بیٹھا اپنا ہی گھر بار ہے
بے خیالی میں گُذر جاتی ہے اِن کی صبح و شام
قصرِ راحت اِن کا ہوتا روز کیا مسمار ہے
’ریت‘ کو سمجھی ہے اِن کی البتہ بزمِ سخن
حاضری لازم ہے اِس میں خواہ کوئی بیمار ہے
کوئی ہو محظوظ اِن کی شاعری سے یا نہ ہو
خبط اِن کو ہے کہ وہ ہی داد کا حقدار ہے
تھام لیتا جب کبھی مائک وہ اپنے ہاتھ میں
سامعیں کے ساتھ ہوتی پھر اُسے تکرار ہے
مجھکو مانو وقتِ حاضر کا میں ہی اقبالؔ ہوں
ہے جُڑی غالبؔ سے میرے ہرسُخن کی تار ہے
زعم اس کو ہے کہ میں بھی صاحبِ دیوان ہوں
رقم جسمیں حُسنِ زن کے شوق کا ظہار ہے
بے وجہ عشاقؔ لازم ہے نہیںشعرا سے بیر
ذہنِ شاعر کی صناعی قوم کا کردار ہے

عشاقؔ کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو (ہند) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469