مونٹریال کی حیاتیاتی تنوع کانفرنس 

مظہر اقبال مظہر، لندن
آج دنیا کوموسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا فعال اور عالمگیر منصوبہ چاہیے جو نہ صرف کر ہ ارض کے 8 ارب انسانوں کے حقوق کا تحفظ کر سکے بلکہ یہاں بسنے والے جانوروں، چرند پرند اور حشرات کی بے شمار اقسام کے ساتھ ساتھ سمندروں کی تہہ میں موجود دیگر جانداروں کی بقا کا ضامن بھی ہو۔ یہ سب کچھ اسی صورت ممکن ہے جب قدرت کے وضع کردہ نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔یہ ضروری ہے کہ انسانوں اور جانوروں کے علاوہ دریاؤں ، سمندروں ، جھیلوں میں رہنے والی آبی حیات کو جس قدرتی آب و ہو اور درجہ حرارت کی ضرورت ہے اس میں تعطل پیدا نہ ہو۔اسی لیے گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنے کے لیے قدرت کے وضع کردہ نظام کے اپنے اصلی حالت میں جاری و ساری رہنے کی بہت اہمیت ہے۔
7سے 19 دسمبر 2022 تک کینیڈا کے شہر مونٹریال میں دنیا بھر کی حکومتیں قدرت کے نظام میں انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہونے والے نقصان کو روکنے اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے طریقہ کار پر غور کے لیے اکٹھی ہوں گی۔ اس مقصد کے لیے ایک عالمی سطح کی مہم کے لیے رہنمائی اور اہداف مقرر کرنے کے لیے صلاح مشورے بھی ہونگے اور اس کے لیے ضروری مالیاتی نظام پر اتفاق رائے بھی سامنے آسکتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا بھر میں حیاتیاتی تنوع بگڑ رہا ہے اور اگر اس جانب مختلف ممالک او ر بڑے عالمی اداروں کے فیصلہ سازوں کی توجہ نہ دلائی گئی، تو یہ بگاڑتیز تر ہونے کا خدشہ ہے۔ مونٹریال کی مذکورہ بالا کانفرنس 2020 میں طے پانے والے حیاتیاتی تنوع کے متعلق اس فریم ورک کے طریقہ کار پر کام کی رفتار کو مزید تیز کرنے کے لیے بلائی گئی ہے۔ جس کے تحت انسانی معاشرت اور حیاتیاتی تنوع کے باہمی تعلقات میںاس حد تک تبدیلی لانا مقصود ہے کہ 2050 تک انسانی سرگرمیاں فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں ۔ یہ ایک انتہائی اہم اقدام ہوگا کہ دنیا اپنے اس مقصد کو پالے۔ حیاتیاتی تنوع کے اس فریم ورک کے مقاصد میں یہ شامل ہے کہ زمین پر موجود ہر قسم کی جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ ساتھ انسانوں کی اپنی صحت اور فلاح و بہبود کی حفاظت کے لیے ایک جرات مندانہ عالمی طریقہ کار اپنانے کی ضرورت ہے ۔ا قوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق 2080 تک دنیا کی آباد ی میں مزید اڑھائی ارب کا اضافہ ہو چکا ہوگا۔آبادی میں اضافہ کے ساتھ دنیا بہت تیزی سے عدم مساوات کا شکار ہو رہی ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے۔ اس بات کا اندازہ دنیا کے مختلف خطوں میں بسنے والوں کی اوسط عمر سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آج سویٹزرلینڈ اور اٹلی جیسے ممالک میں اوسط عمر 84 سال جبکہ وسطی افریقہ کے ممالک میں 54 سال ہے۔ عدم مساوات اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی دوسری مثال یہ ہے کہ دنیا کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ غریب ترین ممالک میں ہو رہا ہے جہاں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کی شرح بہت کم ہے لیکن وہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔قدرت نے جنگل اور بیاباں جنگلی حیات کے لیے جبکہ دریا ، سمندر اور جھیلیں سمندر ی و آبی حیات کے مسکن بنائے تھے ۔جب تک انسانی آبادیوں کا ان مساکن کے نظام میں عمل دخل نہیں تھا، جنگلی و آبی حیات قدرت کے وضع کردہ نظام کے تحت چل رہی تھی ۔انسانی آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوا تو صنعتی زندگی کا پہیہ جاری رکھنے کے لیے انسانوں نے جس بے دردی سے قدرتی و معدنی وسائل کو نوچنا شروع کیا ،ا س کا لازمی نتیجہ قدرتی نظام میں خلل کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کا طرز زندگی جانوروں اور انسانوں کو قریب تر کر رہا ہے۔تاہم فطرت کےقوانین کی اس خلاف ورزی سے نت نئے مسائل جنم لینا شروع ہوگئے ہیں۔ جس سےکروناجیسی مہلک بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انسانوں کو لگنے والی تقریباً ساٹھ فیصد انفیکشن کا ذریعہ جانور ہوتے ہیں۔
دوسری جانب جنگلی و آبی حیات کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ 2019 میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں سائنسدانوں نے متنبہ کیا تھا کہ حیاتیات کی کل اسی لاکھ اقسام میں سے دس لاکھ اقسام کا اگلی چند دہائیوں کے اندر ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ ہم اس قدر وسیع طور پر ہونے والی زمینی تبدیلیوں کے چھٹے بڑے دور سے گزر رہے ہیں۔ پچھلے پانچ ادوار میں ہونے والی تبدیلیوں نے دنیا کی ساٹھ سے پچانویں فیصد انواع کا دنیا سے صفایا کر دیا تھا۔ ماحولیاتی نظام کے اندر اس قسم کے حالات پیدا ہونے میں ماہرین کے خیال میں لاکھوں سال لگتے ہیں۔اسی لیے اس سال کی اقوام متحدہ کی حیاتیاتی تنوع کانفرنس 2030 تک ایک قدرتی دنیا کے حصول کے لیے عالمی اقدامات کی رہنمائی کے لیے ایک تاریخی معاہدے پراکٹھے ہونےکا ایک بہترین موقع ہے۔
[email protected]