موسمیاتی تبدیلیوں کے تئیں عوام اور حکومتیں بیدار | اربوں لوگوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ندائے حق

’’ایسا گمان ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں اب عام لوگوں کے لیے حقیقی اہمیت کی حامل ہو رہی ہیں، لیکن ہمارے سیاست دان ان تبدیلیوں کا کوئی نوٹس لینے کے لیے تیار نظر نہیں آتے، جب کہ دنیا بھر کے اربوں لوگوں کی زندگیوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کے بے پناہ منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ‘‘
………………………………………..
حالیہ عرصے میں دولت مند ممالک کے ذریعے ہونے والے موسمیاتی نقصانات کے معاوضے کو حاصل کرنے کے لیے پسماندہ ممالک کو معاوضہ فراہم کرنے کے مطالبات کے علاوہ، کچھ ممالک کے شہریوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج کو ناکافی طریقے سے حل کرنے کے لیے اپنی حکومتوں کے خلاف قانونی کارروائی بھی شروع کردی ہے۔
نومبر کے مہینے میں ماحولیات سے متعلق دو واقعات رونما ہوئے۔ سب سے پہلے نومبر کے شروعات میں مصر کے شرم الشیخ میں تازہ ترین COP سربراہی اجلاس منعقد ہوا ، جسے ’افریقہ کاCOP‘ بھی کہا جارہا ہے۔ اس اجلاس میں سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ”Loss and Damage” یعنی کہ ’’نقصان اورتباہی‘‘ کے لیے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو امیر یعنی کہ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ان کے ملکوں میں کیے گئے نقصانات کی مالی بھرپائی کرنی چاہیے۔ نومبر کے وسط میں سوئیڈن کی گریٹا تھنبرگ سمیت سیکڑوں کارکنوں نے اسٹاک ہوم کی سڑکوں پر عدالت کی جانب مارچ کرتے ہوئے سویڈش حکومت کے خلاف ایک مقدمہ دائر کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
سویڈش شہریوں کا مقدمہ :۔600 سے زیادہ نوجوان کارکنوں نے 87 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز پر دستخط کیے، جو اسٹاک ہوم ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیے گئے مقدمے کی بنیاد کے طور پر کام کرے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ عدالت فیصلہ دے کہ ملک کی موسمیاتی پالیسیاں شہریوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ نوجوانوں کی زیرقیادت قائم تنظیم ’ارورہ‘ جس نے مقدمہ تیار کیا اور دائر کیا،اس کے ترجمان اینٹون فولی کے مطابق، سویڈن کی حکومت نے کبھی بھی موسمیاتی بحران کو بحران کے طور پر نہیں دیکھا۔ سویڈن اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہو رہا ہے اور قانون شکنی کر رہا ہے۔اس سے قبل، موسمیات سے متعلق مقدمات میں سے ایک میں، جرمنی کی اعلیٰ ترین عدالت نے گزشتہ سال فیصلہ دیا تھا کہ نوجوانوں پر غیر ضروری بوجھ سے بچنے کے لیے حکومت کے آب و ہوا کے اہداف کو ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے۔ان دونوں خبروں سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں لوگ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں تیزی سے آگاہ ہو رہے ہیں، اور یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ لالچ اور لالچ کے تحت اس تباہی کو پھیلانے کا اصل مجرم کون ہے؟
نقصان اور تباہی فنڈ کیا ہے؟:۔1991 میں جنیوا میں بین الاقوامی آب و ہوا کے مذاکرات میں چند چھوٹے جزیروں کی حکومتوں کے اتحاد نے سب سے پہلے “Loss and Damage” یعنی کہ ’’نقصان اور تباہی‘‘ کا تصور متعارف کرایا تھا، لیکن 2013 کی وارسا، پولینڈ میں منعقد ہونی والی COP-19 موسمیاتی کانفرنس تک اس پر دوبارہ سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا۔گو کہ وارسا میں ایک نئے طریقہ کار کو اپنانے کی بات کہی گئی تھی، لیکن ابھی تک اس میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔ Glasgow COP نے گزشتہ سال ایک سو سے زیادہ ترقی پذیر ممالک اور چین کے G-77گروپ کے اراکین کی جانب سے مالیاتیمعاوضہ کو باضابطہ نقصان اورتباہی کے خمیازے کو پورا کرنے کی تحریک کو مسترد کردیا تھا۔ اس کے بجائے، نوکر شاہی انداز میں’ گلاسگو ڈائیلاگ‘ قائم کیا گیا تھا۔ جس کے ذریعے یہ طے پانا تھا کہ کس ملک کو کتنا پیسہ ترقی یافتہ ممالک سے ملنا چاہیے۔ناقدین نے اس مکالمے کو ”مزید کارروائی میں تاخیر کا بہانہ” قرار دیا تھا۔جب کہ تاریخی طور پر، 1751 اور 2017 کے درمیان، ریاست ہائے متحدہ امریکہ، یورپی ممالک اور برطانیہ مجموعی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے 47 فیصد عالمی اخراج کے ذمہ دار تھے، جب کہ پورے افریقی اور جنوبی امریکی براعظموں سے صرف 6 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوا تھا۔ اس کے باوجود، مجرم ممالک نے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک پر ان کے ذریعے ماحولیات کو بگاڑنے کے لیے جو نقصان ان کو پہنچائے تھے اس کا معاوضہ دینے کے لیے وہ ابھی بھی سست روی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔2010 میں، مغربی ممالک نے2020 تک سالانہ $100 بلین (€101 بلین) دینے کا وعدہ کرنے پر اتفاق کیا تھا تاکہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کے لیے ان کی کوششوں میں مدد گار ثابت ہوسکے۔ لیکن یہ رقم بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہی ہے۔
رکاوٹ کیا ہے؟ : ۔اگرچہ اصولی طور پر، ترقی یافتہ ممالک ان کے ذریعے ’’نقصان اورتباہی‘‘ کو دور کرنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان میں سے کچھ موجودہ موسمیاتی فنڈز، انشورنس اسکیموں اور انسانی امداد کے ذریعے مالی اعانت کے لیے استدلال کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ان کی ہچکچاہٹ یورپی یونین کے بیان میں صاف جھلکتی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین” “L&D (نقصان اور تباہی) کو ایک حساس موضوع کے طور پر بحث کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے وہ ’’L&D فنڈ‘‘ قائم کرنے سے گریز کرنا چاہتی ہے۔ سابق برطانوی وزیر اعظم اور عالمی صحت کی مالی اعانت کے لیے ڈبلیو ایچ او کے سفیر، گورڈن براؤن نے حقیقت پسندانہ تجزیے میں کہا کہ نئے اقدام کا اعلان یعنی کہ ’’Loss and Damage فنڈ‘‘ آب و ہوا سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کو معاوضہ دے کر تاریخی غلطیوں کو درست کرنے کے لیے، ایک اچھاعنصر ثابت ہو سکتا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ترقی یافتہ دنیا واقعی اپنی تجوریاں کھولنے کے لیے تیار ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ اس پیش رفت نے ایک اور اقدام کی یادیں تازہ کر ادی ہیں۔ 2009 کے کوپن ہیگن موسمیاتی سربراہی اجلاس میں £100 بلین سالانہ کی رقم پر اتفاق کیا گیا تھا تاکہ غریب ممالک کو موسمیاتی بحران کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے،لیکن ابھی تک اس فنڈ کو پوری رقم حاصل نہیں ہوئی ہے تو کسی نئے فنڈ کو اور رقم کہاں سے حاصل ہوگی؟
مجموعی طور پر آج جس چیز کی ضرورت ہے وہ کم نہیں بلکہ زیادہ امداد کی ہے تاکہ ترقی پذیر ممالک کو بحرانوں کے لا متناہی سلسلے کے منفی نتائج سے نمٹنے میں مدد حاصل ہوسکے۔ جب دنیا پورے طور پر موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور اس سے ہونے والے متعلقہ مالی نقصانات سے پوری طریقے سے واقف ہوئی تھی اس وقت یہ ترقی پذیر ممالک اس حالت میں نہیں تھے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک سے کسی معاوضے کی بات کرسکیں، لیکن اب یہ آواز ایک حقیقت بنتی جارہی ہے۔ عالمی برادری کے لیے ایک اہم ترجیح نہ صرف امداد میں اضافہ کرنا ہونا چاہیے بلکہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی موافقت کے چیلنج سے موثر انداز میں نمٹنے میں مدد کرنا بھی شامل ہونا چاہیے۔ ’’گرین امداد‘‘ کے ذریعے حکومتوں کے لیے مالی اور تکنیکی مدد اور موسمیاتی تبدیلیوں میں تخفیف اور موافقت دونوں کے منصوبوں میں براہ راست سرمایہ کاری اس پہل کا بنیادی جز ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)