مرنجاں مرنج:فلسفہ بہجت و انبساط | یہ جوزندگانی کا کھیل ہے ،غم و انسباط کا میل ہے تجلیات ادراک

ڈاکٹر عریف جامعی
راقم الحروف نے یہ اصطلاح یا ترکیب (مرنجاں مرنج) پہلی بار جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں اپنے تدریسی عمل کے دروان اپنے ہمکار اساتذہ کی زبان سے سنی۔ فارسی الاصل یہ ترکیب سنتے ہی جیسے کانوں میں رس گھولنے لگی۔ اس وقت اس ترکیب کے لغوی اور اصطلاحی پہلوؤں پر ذرا بات ہوئی تھی۔ چونکہ اہلیان پاک و ہند کے ادب شناسوں کا ذوق ادب قابل دید ہونے کے ساتھ ساتھ قابل تقلید بھی ہوا کرتا ہے، اس لئے یہ ترکیب راقم کے ذہن میں نقش بھی ہوئی اور گونجتی بھی رہی۔ چند روز قبل کالج کے ایک ہمکار استاد، جو ہمیشہ مسکراتے رہتے ہیں، کے لئے اس ترکیب کا راقم نے ایک گفتگو کے دوران استعمال کیا۔ اسی وقت اس ترکیب کی مختلف جہتوں پر غور و فکر کرنا شروع کیا، جس کے دوران ایسا محسوس ہوا جیسے کہ ’’مرنجاں مرنج‘‘ ایک ترکیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فلسفہ بھی ہے۔
فارسی میں یہ ترکیب ’’مرنج مرنجاں‘‘ کی صورت میں رائج ہے، جس کے معنی ہیں ’’وہ شخص جو ہر حالت میں خوش رہے!‘‘ اب ظاہر ہے انسان کو ربّ تعالیٰ نے دنیا میں جس مشکل آزمائش میں ڈالا ہے، اس میں ہر حال میں خوش رہنا ممکن نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا واضح اعلان ہے کہ: ’’بے شک ہم نے انسان کو (بڑی) مشقت میں پیدا کیا ہے۔‘‘ (البلد، ۴) تاہم ہر مشکل کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ غم پر منتج ہوکر خوشی کا بالکل ہی خاتمہ کرڈالے۔ دراصل خدائی یا ربانی منصوبے میں مشکلات مسابقت (چیلنج) کے لئے ہوا کرتی ہیں۔ اور مشکلات کا سامنا کرکے ہی انسان اپنے اندر چھپے جوہر (پوٹینشل) کو باہر لاتا ہے اور کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشکلات میں سے گزر کر ہی انسان کا ’’مس خام کندن‘‘ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حال میں خوش رہنے والے انسان یعنی ’’مرنجاں مرنج‘‘ کو بھی مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے اور خوب پڑتا ہے۔ البتہ بات صرف اتنی ہے کہ وہ کبھی ہمت نہیں ہارتا اور ہنسی خوشی اس مشکل کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے اور اپنی بدیہی خوشی کو برقرار رکھتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ حل تلاش کرنے کی سعی و جہد کرتے ہوئے وہ خوشی کو غم پر حاوی کرلیتا ہے۔ یہ انسان ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو کچھ اس طرح ترتیب دیتا ہے کہ اس کی نظر منزل پر جمی رہتی ہے اور منزل کی جستجو میں پیش آنے والی مشکلات کو وہ غم سے کبھی تعبیر نہیں کرتا۔ اس کا نظریہ زندگی اور نصب العین کچھ اس طرح کا ہوتا ہے کہ وہ حسن تاویل یا تعبیر کے ذریعے فکری سطح پر غم کے اثر کو زائل کرتا ہے اور حسن تدبیر کے ذریعے جانب منزل رواں دواں رہتا ہے۔ بقول علامہ اقبال:
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
خالق کائنات نے اپنے تخلیقی منصوبے میں یہ بات شامل رکھی ہے کہ ’’ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘ (الم نشرح، ۵-۶) اس لئے انسان کی سرشت میں ہی خوش طبعی خمیر کی طرح موجود رکھی گئی ہے۔ اس لئے یہ بات کہ ’’ہر مشکل کے بعد آسانی ہے‘‘ پوری طرح درست نہیں ہے، کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مشکل میں انسان کو رُک کر آسانی کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنے سے انسان نہ صرف جمود کا شکار ہوسکتا ہے بلکہ مایوسی اس کو گھیر سکتی ہے، جو اس کی خوشی کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ چونکہ پیغمبران کرامؑ انسانیت کے لئے ایک بہترین اسوہ پیش کرتے ہیں، اس لئے یہ بات بھی اسی اسوہ سے سمجھی جاسکتی ہے کہ مشکلات کسی بھی نوعیت کے ہوں، انسان مغموم ہوسکتا ہے اور یقینی طور پر ہوجاتا ہے، لیکن مایوس ہوکر انسان صرف اس آسانی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جو اس کے لئے صبر، اطمینان اور خوشی کی صورت میں مقدر کی جاتی ہے۔ سیدنا یعقوب ؑ کے اپنے فرزند ارجمند، سیدنا یوسفؑ کے لئے غم کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے قرآنی آیت کا یہ حصہ کافی ہے کہ ’’میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کررہا ہوں۔‘‘ (یوسف، ۸۶) لیکن یہ غم یعقوبؑ کو کبھی مایوسی کی طرف نہیں لے جاتا۔ اس کے بالکل برعکس آپ ؑ ہر مرحلے پر پیدا ہونے والے موقعے کو ایک حوصلہ مند انسان کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوسف ؑ کی تلاش جاری رکھنے کے لئے اپنے بیٹوں کو یوں مخاطب کرتے ہیں: ’’میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‘‘ (یوسف، ۸۷)
’’مرنجاں مرنج‘‘ انسان کے مزاج میں نرمی، لطف، کرم، رافت اور رحمت کا موجود ہونا لازمی ہے۔ ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس ترکیب کا استعمال تو نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس میں شامل تمام مثبت پہلو آپؐ میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ خاص طور پر جب ہم اس اصطلاح میں موجود خوشی، مسرت اور نرمی کے پہلو کو دیکھتے ہیں تو ان تمام صفات کا آپ ؐ ایک بحر ناپیدا کنار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی کو اس طرح اُجاگر کیا: ’’اللہ کی رحمت کے باعث آپ ان پر نرم دل ہیں۔‘‘ (آل عمران، ۱۶۹) جہاں تک خوشی کا تعلق ہے تو آپؐ کا چہرہ انور ہمیشہ متبسم رہتا تھا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ حمیت حق میں آپؐ کے چہرہ اقدس کا نوارانی رنگ متغیر ضرور ہوتا تھا۔ کیونکہ حق کی حمایت کے لئے آپؐ کی تعلیم ہی یہ ہے کہ: ’’الحب فی اللہ والبغض فی اللہ، یعنی اللہ کی خاطر کسی سے محبت رکھنا اور اللہ ہی کی خاطر کسی سے بیزار رہنا۔‘‘(احمد و ابو داؤد) تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کبھی غم کی کیفیت طاری نہیں ہوتی تھی۔ چونکہ غم بھی انسانی زندگی کی ایک حقیقت ہے، اس لئے آپؐ نے پورے ایک سال کو ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال) قرار دیا۔ یہ وہی سال تھا جب بنوہاشم کے خلاف قریش کی طرف سے کیے گئے معاشرتی مقاطعے (سوشل بائیکاٹ) کے ختم ہوتے ہی آپؐ کے سرپرست چچا، ابو طالب اور آپؐ کی شریک حیات، سیدہ خدیجہ ؓ وفات پاگئے۔ تاہم غم کا سال قرار دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ ؐ غم سے اتنے متاثر ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی منصبی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوئی کمی کی۔ اس کے برعکس یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپؐ نے زیادہ تندہی کے ساتھ اپنی دعوتی ذمہ داریوں کو نبھایا۔ اس دور کے سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ عام الحزن سے لیکر ہجرت تک آپ ؐ نے بیس سے زیادہ قبائل تک دعوت پہنچائی۔ اسی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ یترب (مدینہ) کے قبائل اوس اور خزرج نے اسلام قبول کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ اسلام کے لئے ایک ابدی ٹھکانہ فراہم کیا۔
دراصل خوشی، اطمینان اور مسرت ایسی دائمی نفسیاتی اور قلبی حالتیں ہیں جو اعلی اور ارفع مقاصد کے حصول کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسالتمآبؐ نے مذکورہ صدر حالات میں (عام الحزن) کے بعد طائف کا سفر کیا تو طائف والوں کے غیر انسانی ظالمانہ رویے کا آنجنابؐ نے بالکل یعقوب ؑ کی طرح رب کائنات کے سامنے ان الفاظ میں اظہار کیا: ’’اے خدا! میں تیرے ہی حضور میں اپنی ضعف قوت اور لاچاری اور لوگوں کی ایذا دہی کی شکایت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تیرے اس نور کے ساتھ جس سے تو نے ظلمات کو روشن کیا ہے اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تو اپنا غضب و غصہ مجھ پر نازل فرمائے۔ نیکی اور بدی کی قوت نہیں مگر تیری توفیق کے ساتھ۔‘‘ یعنی پیغمبران کرام علیہ السلام حزن و ملال کے درمیان خیر کی راہ پر ہنسی خوشی اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ معمول کے انفرادی حالات میں بھی وہ غم کی کیفیت کو ایک خاص حد سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس ضمن میں سیدنا ایوبؑ کا شدید بیماری میں رب کائنات سے یہ دعا کرنا ہو کہ ’’مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘ (الانبیاء، ۸۳) یا نبی کریمؐ کا اپنے فرزند، ابراہیم کی کمسنی میں وفات پر یہ فرمانا ہو کہ ’’آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے، مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہوجائے۔ اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں،‘‘ (صحیح بخاری) دونوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ غم کی حالت کا طاری ہونا انسانی فطرت میں شامل ہے، لیکن غم کو ایک خاص دائرے میں محدود کرنا ہی اولوالعزم انسانوں کا شیوہ رہا ہے، کیونکہ اصلی دائمی حالت بہرحال خوشی کی ہے جو انسان کو راہ راست پر رواں دواں رکھتی ہے۔
فکر و فلسفے کی دنیا میں زینو نے ایک فلسفہ کی تیسری صدی قبل مسیح میں بنیاد رکھی جسے سٹوئسزم (رواقیت یا جبریت) کہتے ہیں۔ اس فلسفے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس کا ماننے والا خوشی اور غم دونوں سے برات یا لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔ یا یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایسے شخص کی حالت پر حزن و ملال اثر انداز ہوتا ہے اور نہ ہی مسرت و انبساط اس کی حالت کو غیر کرتی ہے۔ تاہم اس فلسفے کی اپنی اخلاقیات ہیں جس کے توسط سے اس فکر کے حامی اپنے فکر و عمل میں نظم و ضبط پیدا کرتے ہیں۔ تاہم قنوطیت یا فلسفہ یاس (پیسمزم) ایک مکمل منفی فلسفہ ہے جس کے مطابق دنیا فقط ناامیدی کا ایک کارخانہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے فکری ڈھانچے میں خوشی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور دنیا میں اس فلسفے کی رو سے خوشی کی تلاش عبث ہے۔ تمام تر منفی رجحانات کے باوجود اس فلسفے نے کئی ایک حکماء اور فلاسفہ کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کی بڑی مثال دسویں اور گیارہویں عیسوی کے عرب شاعر ابو العلاء المعری ہے، جس کی شاعری یاس و غم اور ناامیدی کا ایک مجموعہ ہے۔
تاہم ہم اپنے مرزا نوشہ (یعنی غالب) کو یاس کے اس زمرے میں شامل نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ رجل ’’مرنجاں مرنج‘‘ کی ایک اعلی مثال ہیں۔ سیاسی، معاشرتی اور انفرادی غم کے سیلاب میں جھوجھنے کے باوجود غالب نے ایک ایسا ادب تخلیق کیا جو غم سے دو دو ہاتھ کرنے کی آپ میں ایک قوت رکھتا ہے۔ غالب گرچہ بار بار غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن زندگی کی خوشیوں کو بھی سمیٹنے کا ہنر سکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غم کو زندگی کی ایک حقیقت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
غم اگرچہ جانگسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا
تاہم مرزا غم کے اندھیروں میں خوشی کی تجلّی اور مشکلات کی تاریکی میں آسانیوں کے اُجالے کے متمنی بھی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غم سے یوں خود کو رہائی دلواتے ہیں:
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
بہر کیف ’’مرنجاں مرنج‘‘ شخص نہ صرف خوش رہنے کے سارے گر جانتا ہے، بلکہ ایسے شخص سے ’’کسی کو رنج بھی نہیں پہنچتا۔‘‘ اور تو اور ایسا شخص ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے آفاقی اصول کی طرح اس اصول پر کاربند رہتا ہے کہ ’’نہ کسی کو رنجیدہ کرو، نہ خود رنجیدہ ہو۔‘‘ یعنی ایسے شخص کا وجود محفلوں کی رونق کے لئے اسی طرح ضروری ہوتا ہے جس طرح گنچے گلشن کے لئے لازمی ہوتے ہیں! بقول شاعر ؎
انسان میں مرنج و مرنجاں عزیز ہے
(مضمون نگار اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ9858471965
[email protected]