مدارس میں جدید علوم اور فنی تعلیم کی ضرورت فکر انگیز

قیصر محمود عراقی
تاریخ اسلام میں مدارس کی اہمیت اور ان کے درخشاں کردار کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ، مدارس نے دنیا کوایسے قانون داں ، فلسفی، اطبا، مورخ اور سائنس داں دیئے ہیں جس کا کام آج کے جدید دور میں بھی مشعلِ راہ ہے۔بر صغیر ہندو پاک میں تاج بر طانیہ کی آمد سے قبل حصولِ تعلیم کا واحد ذریعہ مدارس ہی تھے، تاج بر طانیہ نے زمام کا ر سنبھالنے کے بعد دنیاوی و دینی تعلیم کے مراکز الگ الگ کر کے ایک ہی معاشرے میں تعلیمی علیحدگی کی ایسی بنیاد رکھی، جس کی آلا ئشیں آج تک سمیٹے نہیں سمٹ رہی ہیں ۔ ملک میں اس وقت ہزاروں مدارس ہیں، جس سے بلا مبالغہ لاکھوں نوجوان مدارس سے وابستہ ہیں جن کا معاشرتی کردار بالعموم دینی تعلیم تک ہی محدود ہے ۔ اس کے باعث ایک قابل ذکر طبقے کو پورے معاشرے کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ گردانا جا رہا ہے ۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ یہ معاملہ مقتدر طبقات کے بھی پیش نظر ہے ۔ اسی وجہ سے مدارس کے نصاب کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اگر دینی مدارس کے طلبا کو جدید تعلیم سے ہم آہنگ کیا جا ئے تو نہ صرف تمام طبقات قومی تر قی میں شریک سفر ہو نگے بلکہ ملک بھی تیز تر ترقی کی منازل طے کر ے گا ۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر مسلم ممالک اپنے دینی مدارس کے طلبہ کو ۲۱؍ ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق بنانا چاہتے ہیں تو وہ اپنے مدرسوں میں جدید تعلیم کو بھی فروغ دیں اور غیر مسلموں سے نفرت کی تعلیم دینا بند کریں ۔ اسلام ایک مکمل دین ہے ، لیکن مسلمان نوجوانوں کی تعلیم صرف دین اسلام اور اسلامی اصولوں تک محدود نہیں رہنی چاہئے بلکہ اس میں ۲۱؍ ویں صدی کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھکر بچوں کو جدید تعلیم دینی چاہئے۔ اگر مذہبی تعلیم محدود رکھی گئی تو مسلمان نہ صرف پیچھے رہ جائینگے بلکہ وہ کئی معاملات میں غیر مسلموں کے محتاج ہو جائیںگے اور پسماندگی کا شکار رہیںگے ۔ دینی مدارس میں بنیادی تعلیمات ، قرآن کریم و احادیث مبارکہ کی تفسیر و تشریح و دینی مسائل کے ساتھ جدید تعلیم دینا ضروری ہے ، اس کے علاوہ فنی تعلیم بھی آج کی دنیا میں اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ لہٰذا دینی مدرسوں میں جہاں جدید علوم کی تعلیم ضروری ہے وہاں فنی تعلیم بھی ضروری ہے ، فنی تعلیم سے بچوں کو بہرہ مند کر کے انہیں اچھا کاریگر بنایا جا سکتا ہے جو کہ ان کی آئندہ زندگی میں بہت کام آئے گا ، اس سے وہ اپنا روزگار حاصل کر سکیں گے ، مولوی صاحب اور مساجد کے اماموں کے لئے اگر ریفریشر کورسز کا اہتمام کیا جا ئے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں ، بشرطیکہ یہ کام سمجھدار اور روشن خیال علما کی مدد سے کیا جا ئے ، اسلامی تعلیمات عام کر نے اور رواداری کی اہمیت اُجاگر کر نا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
بلا شبہ ہمارے علما دین ہی قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی لاتے ہیں ۔ مفتیان کرام قرآن و حدیث کی روشنی میں جب وقت کے تقاضوں کے مطابق مسائل کا حل نکال سکتے ہیں تو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مدارس کا نصاب تعلیم تشکیل کیوں نہیں دے سکتے؟ مدارس کی قیادت اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ گیاریں صدی تک مسلمانوں کا عروج تھا ۔ ذکریا الرازی ، ابو لحسن طبری ، علائو الدین بن شاطر ، ابن الہشیم ، ابن سینا ، ابو القاسم زہراوی اور جابر بن حیان مسلم مفکر ین تھے ۔ جنہوں نے مسلمانوں کو نئی نئی ایجادات سے روشناس کرایا ہے ۔ بد قسمتی سے جب ہم نے جدید علوم اور تحقیقات سے منھ موڑا تو ایک انجکشن تک نہیں بنا سکے ۔ ہزاروں مدرسوں سے دینی تعلیم حاصل کر نے والوں کے پاس ملازمت کے کیا مواقع ہیں ، کیا ان بچوں کاحق نہیں کہ وہ ڈاکٹر ، انجینئر یا فوجی آفیسر بنیں ۔ یہ اس وقت ممکن ہو سکتا ہے ،جب ان کے سلیبس میں درس نظامی کے ساتھ دوسرے ہم عصر مضمون ہو نگے ۔
ملی رہنما ، دینی رہنما ، دانشوران اور مخیر حضرات کو چاہئے کہ وہ دینی مدارس میں اسلام کے علاوہ جدید علوم و فنون سائنس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تدریس کا اہتمام کر نے میں سنجیدگی سے کوشاں ہو ں تا کہ ان اداروں سے تعلیم پا کر نکلنے والے افراد ملک کے مفید اور اچھے شہری بن سکیں ۔ اس مسئلہ پر سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہے ، علما کرام کو بلا تفریق کار خیر میں حصہ لینے کی ضرورت ہے ۔ دینی مدارس کے تر بیت یافتہ با صلاحیت علما کرام جب وکیل ، جج ، پروفیسر اور ڈاکٹر بنیںگے تو معاشرے میں ایک انقلاب آئے گا ۔زبانی کلامی باتوں سے معاشرے میں تبدیلی ناممکن ہے ۔ بظاہر پوری امت مسلمہ سودی نظام کے خلاف ہے لیکن اس کے باوجود اس سے پیچھا نہیں چھڑا پا رہی ہے کیونکہ متبادل نظام کی ضرورت ہے ۔ اس لئے علما کرام جب تک ان محکموں میں نہیں آئیں گے، اس نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ، سوا ارب سے زائد ہو نے کے باوجود مسلمان دنیا میں محکوم ہیں ۔ دوسری طرف یہودی دنیا میں آٹے میں نمک کی مثل ہیں لیکن عالمی معیشت پر قابض ہیں ، یہود و نصاریٰ باہم شیر وشکر ہیں جبکہ مسلمان آپس میں دست گریباں ، غیر مسلموں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں تجربات کر کے چاند پر کمندیں ڈالیں لیکن دوسری طرف ابھی تک بعض جگہوں پر بزرگانِ دین مدرسوں میں انگریزی تعلیم کی تدریس کو ناجائز سمجھتے ہیں ۔ حکومت یونیورسیٹیوں میں دینی تعلیم دیتی ہے یا نہیں ،آپ کو اس سے سروکار نہیں ہو نا چاہئے بلکہ آپ مدارس میں عصری علوم کی تعلیم دے کر ایسے علما پیدا کریں جو یونیوسیٹوں اور کالیجیز میں جا کر وہاں کا ماحول تبدیل کر دیں ۔ حکومت عصری تعلیم کے لئے سہولیات اور انقلابی اقدامات اُٹھا رہی ہے، اس سے فائدہ اُٹھا کر مدارس اپنے طلبا کو جدید تعلیم سے آراستہ کر کے نہ صرف اپنے لئے بلکہ معاشرے کے لئے ایک جدید تر قی یا فتہ نسل کو جنم دے سکتے ہیں ۔
رابطہ۔6291697668