فریب افسانہ

طارق شبنم

وہ صبح سے ہی دیوار پر آویزان گھڑی کی طرف باربار دیکھ رہی تھی ،لیکن وقت دیکھنے میں ناکام رہی۔آخر سورج کی کرنیں کمرے میں بکھرتے ہی اس کو وقت کا اندازہ ہوگیا ،وہ اٹھ کر دھیرے دھیرے دیوار کے سہارے چل کرراجیو کے کمرے میں پہنچی اور انتہائی عاجزانہ لہجے میں اس سے مخاطب ہوئی۔
’’ بیٹا۔۔۔۔۔۔آج مجھے ہاسپٹل جانا ہے اور وہ آپریشن کے لئے پیسے۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ارے ماں۔۔۔۔۔راجیو کا خون حاضر ہے تمہارے لئے ،بس کچھ اور دن صبر کرلو ابھی ہاتھ ذرا تنگ ہے‘‘۔
راجیو، جو فیکٹری جانے کے لئے تیار تھا، نے سگریٹ کو سلگاتے ہوئے میٹھے لہجے میں اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا اور چلا گیا۔
آنکھوں کے عارضہ میں مبتلامس لولی کی آنکھوں کی بینائی اتنی متاثر ہوچکی تھی کہ اب اس کو چلنے پھرنے میں بھی دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ آپریشن کی صلاح تو ڈاکٹر نے بہت پہلے دی تھی لیکن مہینہ بھر قبل تاکید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر جلدی سے آپریشن نہیں ہوا تووہ آنکھوں کی بینائی سے مکمل طور محروم ہوسکتی ہیں۔
راجیو کا کے الفاظ نشتر بن کر اس کے سینے میں پیوست ہوگئے اور درد کی ایک شدید لہر اس کے پورے وجود میں دوڑ گئی۔ وہ بے بسی و لاچاری کی حالت میں کچھ دیر وہیں کھڑی رہیں پھر واپس اپنے کمرے میں جا کر مایوسی کے عالم میں اپنی تقدیر کو کوسنے لگی۔کمرے میں موجود مصنوی پھولوں کا گل دستہ، جس کا رنگ اب پھیکا پڑھ چکا تھا، کو دیکھتے دیکھتے اُس خاص دن کے واقعات فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردوں پر چلنے لگے۔۔۔
اُس دن لولی نے اپنے بنگلے کو دلہن کی طرح سجایا تھااور پارٹی کی تیاریاں مکمل کرنے کے بعد خود بھی خوب سج دھج کر آئینے میں اپنی صورت دیکھ کر خود کو تسلی، جس میں یقین کم اور اندیشے زیادہ تھے، دے کر دو پہر ڈھلتے ہی باغیچے میں آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر مہما نوں کا انتظار کرنے لگی۔اس خاص دن کے موقعے پر لولی کے گھر میں اچھی خاصی گہما گہمی ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔صبح سے ہی اس کا فون بجنا شروع ہوجاتا تھا ۔۔۔۔۔۔مبارک بادیاں ملتی تھیں۔۔۔ ناچ گانے کی محفلیں سجتی تھیں۔۔۔ جام سے جام ٹکراتے تھے اور تحفے تحائیف کے ڈھیر لگتے تھے۔۔۔ لیکن پچھلے چند برسوں سے وہ محسوس کر رہی تھی کہ اس کے چاہنے والوںاور دوستوں کی تعداد اور ان کے پیا ر مین زمین و آسمان کا فرق آیا ہے ،قریبی دوست اور خاص چاہنے والے بھی اس کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
آزاد خیال اور رنگین مزاج مس لولی جس نے زندگی کے شب و روز نہایت ہی عیش و عشرت کے ساتھ گزارے تھے ،کو قدرت نے حسن و شباب کی دولت سے نوازنے میں بڑی فیاضی سے کام لیا تھا ۔۔۔۔۔۔دھلا دھلا تازہ گلاب چہرہ جس پر سونے اور چاندی کے ورق ہی ورق بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔ بڑی بڑی مخمور آنکھیں۔۔۔ لمبے سنہرے ریشمی بال جو کمر کے نیچے تک آرہے تھے۔۔۔ جلد زیتون کی تیل کی طرح تازہ اور شفاف ۔وہ اپنے وقت کی مشہور ٹیلیویزن آرٹسٹ اور جانی پہچانی شخصیت تھی، جس کے دنیا کے مختلف ممالک میں ہزاروں مداح تھے۔اس کے پاس شہرت،عزت،دولت غرض ہر چیز تھی۔ وقت کے بڑے بڑے رئیس اور منصب دار اس کے جادوئی حسن اور دلکش ادائوں کے دیوانے بن کر بھنوروں کی طرح اس کے ارد گرد منڈلاتے رہتے تھے اور اس کے ایک اشارے پر کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوجاتے تھے۔اس کو نہ صرف اپنے بے پناہ حسن اور جوانی پر ناز تھا بلکہ اس بات پر بھی سخت اِتراتی تھی کہ اس کی جادوئی ادائوں کے بل پر دنیا اس کی مٹھی میں ہے۔پیار محبت اور رشتے ناطوں کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔کسی مرد کے پلو بندھ کر گھر بسانے کو وہ دقیانوسی و فرسودہ سوچ اور عورت کی آزادی کو پنجرے میں قید ہونے کے مترادف سمجھتی تھی۔ یوںاپنی آزاد اور رنگین زندگی کے مزے لوٹتے لوٹتے اسے پتہ ہی نہیں چلاکہ وقت کیسے دبے پائوں گزر گیااور اس کی رنگین جوانی کی بہار پر خزاں نے ڈیرے ڈالنے شروع کردئے۔پرکشش جوانی جوں جوں اپنی تاثیر کھونے لگی تو اس کے دوستوں اور چاہنے والوں نے بھی بے رخی برتنا شروع کردی۔دھیرے دھیرے اس کے سب چاہنے والوں یہاںتک کہ خاص مہربانوں نے بھی دوری اختیار کرکے اس کو فراموش کردیا۔کل تک جو اس کی ایک جھلک پانے کے لئے اس کے در پر سوالی بن کر آتے تھے اب وہی نظریں پھیر کر جاتے تھے۔۔۔۔۔۔ اپنے چاہنے والوں کی اس بے رخی کے سبب آہستہ آہستہ وہ بالکل یکہ وتنہا ہو کر رہ گئی۔اس کے پاس عالی شان بنگلہ ۔۔۔۔۔ قیمتی آرام دہ گاڑی ۔۔۔۔۔۔نوکر چاکر،غرض عیش وآرام کی ہر سہولیت اب بھی موجود تھی لیکن اگر کسی چیز کی کمی تھی تو بس پیار اور اپنائیت کی ۔۔۔۔۔ ۔شب و روز کی تنہائی اس کو زہریلے سانپوں کی طرح ڈس رہی تھی۔۔۔ وہ پیار کے ایک میٹھے بول کے لئے ترس رہی تھی۔۔۔۔۔۔یہ دولت عیش وآرام سب کچھ اس کو بالکل بے معنی سالگ رہا تھا۔
کافی دیر اپنے رنگین ماضی و بے رنگ حال کی یادوں میں کھو کر آنے والے مہمانوں کی راہ تکتے تکتے دفعتًا اس کی نظریں مغرب کی جانب ڈوبتے سورج کی طرف اٹھ گئیں۔ ہلکی پڑتی گلابی دھوپ ، جودیواروں اور درختوں سے ودائی لے رہی تھی ،دیکھ کر اس کے چہرے پر افسردگی اور مرونی کی برف جم گئی۔ وہ یاس و نا امیدی کی حالت میں اٹھ کر اندر چلی گئی اور قد آدم آئینے کے سامنے بیٹھ کر گہرائی سے دیر تک اپنے چہرے کے خدو خال اور سراپے کا جائیزہ لیتی رہی جس دوران اس پر اذیت ناک کیفیت طاری ہوگئی۔چہرے پرکلیوں کی سی شادابی کے بدلے موجو د ان گنت جھریاں،آنکھوں کے نیچے پڑے کالے دائیرے اورپھولتا ہوا بے ڈھول سا جسم گویا اس کے حسن اور دلکشی کے ڈوبتے سورج کی چغلی کھا رہے تھے،جب کہ انتہائی شوق سے منگوایا گیا برتھ ڈے کیک بھی اس کا منُھ چڑا رہا تھا ۔ اس کو پورایقین ہوگیا کہ حسن و جوانی کی رنگینیاں اس کو فریب دے کر نکل چکی ہیں۔ اپنی تنہا زندگی کے ویران گلشن کی بر بادی پر سوچتے سوچتے بے چین ہو کر اس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور شکستہ دلی و نا امیدی کی حالت میں اس نے پلکوں کے پٹ کھول کر اندر کے طلاطم کو سیلاب کی صورت میں بہانا شروع کردیا ۔۔۔ شام کا سرمئی اندھیرا پھیلنے کے ساتھ ہی دفعتًاایک گاڑی صحن میں داخل ہوتے دیکھ کر وہ خوش ہو کر باہر آئی اور متجسس نگاہوں سے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔ گاڑی سے ایک کڑیل نوجوان اترا اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اس کے پاس پہنچ کر مٹھاس بھرے لہجے میں بولا۔
’’ہپی برتھ ڈے ٹو یو۔۔۔۔۔۔‘‘۔
لولی نے نم آنکھوں سے شکریہ کرتے ہوئے اس کو بیٹھنے کے لئے کہا۔
’’ ماں جی۔۔۔۔۔۔اس شبھ موقعے پر آپ کی آنکھوں میں آنسوں‘‘۔
لڑکے کی زبان سے لفظ ماں جی سن کر اس کی آنکھوں کی طغیانی میں تیزی پیدا ہوگئی۔
’’بیٹا۔۔۔۔۔۔ یہ خوشی کے آنسوں ہیں ‘‘۔
اس نے رومال سے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا اور نوکر کو آواز دی جو قسم بہ قسم کی مٹھائیاں اور مشروبات لے کر آیا۔
راجیو ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا، لولی نے کئی دفعہ لمبے سفر پر جانے کے لئے اس کی ٹیکسی کرائے پر لی تھی ۔یوں اس کی لولی سے شنا سائی ہوئی تھی ،گو کہ اس نے پہلے بھی کئی بار لولی کے جنم دن کی تقریبوں میں شرکت کی تھی لیکن قریبی دوستوں اور ہم نشینوں کی بھیڑ میں لولی نے کبھی اس کی طرف رتی بھر توجہ بھی نہیں دی تھی۔
’’اچھا ماں جی۔۔۔۔۔۔اب میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔میری طرف سے چھوٹا سا تحفہ‘‘۔
کچھ دیر بعد راجیونے ایک خوب صورت گل دستہ اس کی اور بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ بیٹا۔۔۔۔۔۔ تم جا رہے ہو،اتنی جلدی۔۔۔۔۔۔‘‘۔
گل دستہ لیتے ہوئے اس کے بدن میں سوئیاں سی چھبنے لگیںاور آنکھوں کے تالاب بھر گئے ۔
’’ماں جی۔۔۔۔۔۔آپ روئیں نہیں پلیز‘‘۔
’’ بیٹا۔۔۔۔۔۔ اپنی نا مراد زندگی پر روئوں نہیں تو کیا کروں۔۔۔۔۔۔جنم دن کے موقعے پر آج تمہارے سوا کسی نے وش بھی نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے بیٹا ،کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس نے جھر جھر ی لیتے ہوئے اکھڑے سانس کو قابو میں لاتے ہوئے جذ باتی انداز میں کہا۔
’’آپ دل چھوٹا نہ کریں ماں جی،میں ہوں نا۔۔۔۔۔۔میں ساری عمر بیٹا بن کر تمہاری خدمت کروںگا‘‘۔
راجیو کا اتنا کہنا تھا کہ لولی نے اس کو گلے لگایا اور بے اختیار اس کا ماتھا چومنے لگی۔اس کی آنکھوں میں ایسی چمک عود آئی جیسے اس کو سارے سنسار کی خوشیاں مل گئی ہوں۔
کیک کاٹنے کے بعد لولی راجیو کو دل سے بیٹا مان کر دیر تک اس کے ساتھ باتوں میں مصروٖف رہی۔۔۔۔۔۔اس طرح راجیو ،جس کا اپنا کوئی نہیں تھا اور جو ایک معمولی کُٹیا میں رہتا تھا، بیٹا بن کر ٹھاٹھ سے لولی کے عالی شان بنگلے میں رہنے لگا اورہر لحاظ سے ماں کی طرح ہی لولی کا خیال رکھنے لگا۔راجیوکا ساتھ پا کر لولی کے جیسے بخت جاگ اٹھے ۔اس کے نفسیاتی زیر بم میں عجیب سرور چھاگیا۔اس نے راجیو کے ناز اٹھاتے ہوئے اُسے لاڈ پیار اور چاندی میں پالنا شروع کیا ۔ ٹیکسی ڈرائیوری کے پیشے سے اٹھا کر ایک فیکٹری خریدکر دی اور اس کی شادی کے خواب سجانے لگی۔جب کہ زبانی زبانی یہ بھی کہہ ڈالا میرے مرنے کے بعد میری تمام منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کا مالک را جیو اور صرف راجیو ہوگا ۔اس نے گھر کی ساری ذمہ داریاں راجیو کو سونپیں اور جذبات کی رو میں بہہ کر اپنی ساری جمع پونجی بھی اس کے قدموں میں ڈال دی۔جمع پونجی قبضے میں لے کر سال ڈیڑھ سال بعد ہی راجیو نے غیر محسوس طریقے سے کھونٹا دکھانا شروع کردیا جسے لولی نے جلد ہی محسوس کرلیا لیکن مصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموشی سے برداشت کرتی رہی۔اب جو کمپنی کی طرف سے تھوڑی بہت پنشن ملتی تھی اُس سے وہ اپنے علاج اور دیگر اخراجات کا گزارہ چلاتی تھی ۔وہ کئی مہینوں سے لگاتار آنکھوں کے آپریشن کے لئے درکار ایک لاکھ روپیہ راجیو سے مانگ رہی تھی لیکن وہ ہر بار فنکاری سے ٹال مٹول کرکے ٹرخاتا تھا ۔
کافی دیر تک سوچوں کے تانوں بانوں میں اُلجھے رہنے کے بعد اس کے دل میں یہ بات پوری طرح گھر کر گئی کہ راجیو سے روپے مانگنا پتھر سے دودھ مانگنے کے مترادف ہے اور آپریشن میں مزید تاخیر نقصان دہ ہوگی۔ اس کے سوچ کے ظلمت کدے میں ایک نیا روشن دان کھل گیا ۔اس نے گھر کی ملازمہ کو بلایا اور تیار ہو کر اس کے ہمراہ سیٹھ دھنی رام کے پاس پہنچ کر اسے اپنے بنگلے کے متصل چند مرلے زمین خریدنے کی پیش کش کی ۔سیٹھ نے زمین خریدنے کی حامی بھرتے ہوئے کاغذات مانگے جنہیںحاصل کرنے کے لئے وہ عرضی لے کر محکمہ مال کے دفتر پہنچی ۔
’’یہاں مس لولی کے نام اب کوئی پراپرٹی درج نہیں ہے ۔مرحوم مس لولی کی وصیت کے مطابق اس کی ساری منقولہ و غیر منقولہ جائید مسٹرراجیو کے نام منتقل ہو چکی ہے‘‘۔
دفتری بابونے کچھ دیر کاغذات الٹنے کے بعد اس کو وصیت نامہ اور اس کی موت کی سند دکھاتے ہوئے کہا‘‘۔
٭٭٭
اجس بانڈی پورہ،کشمیر
[email protected]