عوامی صدارت ۔جی 20بھارت | ہر شہری کے لئے اہمیت کاحامل کیوں؟ عزم و عہد

امیتابھ کانت
بھارت کے سفارتکارانہ تعلقات کی تاریخ میں یہ ایک محوری لمحہ ہے۔ بھارت گروپ آف ٹوئنٹی (جی 20) کی صدارت سنبھالنے جا رہا ہے جو ایک بین حکومتی فورم ہے اور دنیا کی وسیع ترین معیشتوں پر مشتمل ہے۔ اس کا قیام 1999 میں عمل میں آیا تھا، یہ گروپنگ دنیا کی دو تہائی آبادی پر مشتمل ہے، 75 فیصد عالمی تجارت اور 80 فیصد سے زائد عالمی مجموعی گھریلو مصنوعات (جی ڈی پی) پر احاطہ کرتی ہے۔ سادہ الفاظ میں، جی 20 دنیا بھر میں عالمی پالیسی کے معنوں میں قوی ترین سیاسی قوت ہے۔ اس لحاظ سے یہ ہمارے عہد کا ایک مقتدر پلیٹ فارم کہا جا سکتا ہے جہاں سرکردہ اور ازحد اہم موضوعات پر غور و فکر کیا جاتا ہے جس میں ہمہ گیر ترقیاتی اہداف، موسمیاتی کاروائی، خوراک سلامتی ، عوامی حفظانِ صحت نظام اور ڈجیٹل تغیر جیسے چند پہلوؤں کا نام لیا جا سکتا ہے۔
جی20 کی صدارت کے ساتھ، بھارت کو وہ موقع حاصل ہوا ہے کہ وہ اپنی جانب سے ایجنڈے کا تعین کرسکے نہ کہ خود اپنی جانب سے ایجنڈے پر ردعمل کا اظہار کرے۔ گلوبل ساؤتھ کے مفادات کے حقیقی نمائندہ اور ترقی پذیر دنیا کے نمائندے کے طور پر فرائض انجام دے۔ ایک ایسے ملک کے طور پر جہاں اتحاد سازی کی ایک مالامال تاریخ رہی ہے اور جہاں دنیا کی نوجوانوں کی سب سے زیادہ تعداد موجود ہے، ماہ مئی تک آدھی آبادی (52فیصد) کی عمر 30 برس سے کم تھی – اس لحاظ سے بھارت کے پاس وہ لمحہ ہے کہ وہ اپنی ترجیحات پر توجہ مرکوز کر سکے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا کے ساتھ اپنے بہترین طریقہ ہائے کار ساجھا کر سکے۔ جی 20 میں سب سے زیادہ تعداد یعنی وفود کے 43 سربراہان آئندہ برس ماہ ستمبر میں فائنل نئی دہلی سربراہ ملاقات میں شامل ہوں گے جو اس بات کا مظہر ہوگا کہ بھارت کی قیادت ہر لحاظ سے مبنی بر شمولیت، اولوالعزم، فیصلہ کن اور کاروئی و عمل سے مملو ہوگی، جیسا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سال بالی میں اپنے اعلان میں کہا ہے۔
جی 20 کی قیادت کا موقع ایک ایسے وقت میں حاصل ہوا ہے جب وجود سے متعلق خطرات بڑھ رہے ہیں، کووِڈ19 وبائی مرض نے ہمارے نظام کے کمزور پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں موسمیات سے متعلق معقول کاروائی بھارت کے صدارتی ایجنڈے کے لیے کلیدی ترجیح ہے جس میں بطور خاص نہ صرف یہ کہ موسمیات سے متعلق سرمائے اور تکنالوجی پر توجہ مرکوز کی جانی ہے ، بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہے کہ پوری دنیا میں ترقی پذیر ممالک کے لیے منصفانہ توانائی تغیر ممکن ہو سکے۔ کاربن کے اخراج کے بغیر صنعت کاری اور صنعتوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت کی منفرد چنوتی کے ساتھ بھارت نے گرین ہائیڈروجن کے معاملے میں زبردست توسیع حاصل کی ہے۔ فی الحال اس کا مقصد یہ ہے کہ 2047 تک سالانہ بنیاد پر پیداوار کی صلاحیت 25 ملین ٹن کے بقدر پہنچا دی جائے۔ اگر ایسا ہوا تو بھارت آئندہ برسوں میں صاف ستھری توانائی تکنالوجی کا برآمدکار بن کر ابھرے گا۔ صنعت، معاشرے اور مختلف شعبوں میں موسمیاتی تبدیلی اور ان کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت نے دنیا کے روبرو لائف (اندازِ حیات برائے ماحولیات) – برتاؤ پر مبنی تحریک کی ایک تجویز پیش کی ہے۔ یہ تحریک ہمارے ملک کی مالامال قدیم ہمہ گیر روایات سے حاصل کی گئی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ صارفین کو ہلکا سا احساس دلایا جائے اور اس کے ساتھ ہی منڈیوں میں بھی کچھ حرکت پیدا ہو اور وہ ماحولیات کے لحاظ سے معقول اور مناسب طریقہ ہائے کار اپنائیں۔کووِڈ۔19 وبائی مرض نے بھی ترقیاتی عمل کے برسوں کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہمہ گیر ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) اس سے بھی کہیں زیادہ فوری صحت عامہ اور خوراک بحرانوں کی نذر ہوگئے۔ قائدین کے اجتماعی گروپ کی شکل میں جی 20کو ایس ڈی جی کے حصول کے لیے اپنی عہد بندگیوں کو پھر سے نافذ اور مہمیز کرنا چاہئے۔ یہ وہی عہد بندگی ہے جس میں عوام سے ایک بہتر، صاف ستھرے، صحت بخش اور خوشحال کرۂ ارض کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم عصر چنوتیوں سے نمٹنے کے لیے پوری دنیا کو ایسے ہم عصر ادارے درکار ہیں جو مساویانہ اور مؤثر طریقہ سے ایک متنوع اور فعال دنیا کے حقائق کا ادراک کر سکیں۔ بھارت کی جی 20 ترجیحات یہ ہوں گی کہ ایسی کثیر پہلوئی اصلاحات پر زور دینا جاری رکھا جائے جو پہلے سے زیادہ قابل احتساب ہوں اور مبنی بر شمولیت بین الاقوامی تنظیموں سے مربوط ہوں۔
بھارتی حکومت مؤثر طریقہ سے ڈجیٹل تکنالوجی کا استعمال سماجی اور اقتصادی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ جی 20 کی یہ صدارت بھارت کے لیے ایک موقع ہے جس کے تحت وہ اپنے علم کو پوری دنیا کے ساتھ ساجھا کر سکتا ہے۔ دنیا کے وسیع ترین بایومیٹرک شناخت نظام (آدھار) کے کامیاب نفاذ کے ساتھ اور 50 گنا سے زائد براہِ راست فائدہ منتقلی کا عمل جو 2014 اور 2022 کے درمیان انجام دیا گیا، بھارت ایک ایسی محوری پوزیشن میں ہے جہاں وہ ڈجیٹل عوامی فلاح و بہبود سے متعلق مکالمے کو ایک سمت دے سکتا ہے اور ڈاٹا کا استعمال ترقی کے لیے کر سکتا ہے۔ ماہ اکتوبر 2022 میں بھارت کے یونیفائیڈ پے منٹ انٹر فیس (یو پی آئی) نے 7 بلین کے بقدر لین دین انجام دیے، 230 ملین سودوں کے مساوی لین دین ایک دن میں انجام پائے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پیمانے پر کامیابی کے ساتھ مالی شمولیت کا ماڈل اپنایا جا سکتا ہے۔ جی20 کی سربراہی کرتے ہوئے بھارت تکنالوجی کے سلسلے میں انسانی تقاضوں پر مرتکز نظریے کے اپنے یقین کو منظرعام پر لا سکتا ہے اور عوامی ڈجیٹل بنیادی ڈھانچے، مالی شمولیت اور زراعت سے لے کر تعلیم تک کے مختلف شعبوں میں تکنالوجی پر مبنی ترقیات کے معاملے میں افزوں علمی اشتراک اور ترجیحات کو نمایاں کرکے پیش کر سکتا ہے۔ بطورخاص مالی شمولیت کے مقصد سے بھارت کے ذریعہ شروع کیے گئے پروگرام مثلاً جے اے ایم تثلیث، نے بھارتی خواتین کو خاطر خواہ مالی خودمختاری فراہم کی ہے۔ وہ اپنے کنبوں کے معاملے میں فیصلہ لینے کے معاملے میں سرگرم شراکت دار بنی ہیں – 56 فیصد کے بقدر کھاتے دار اب خواتین ہیں، اس سے قبل 23 کروڑ کی سابقہ ایسی خواتین جن کے پاس بینک کے کھاتے نہیں تھے، اب وہ بھی بینک کی کھاتے دار بن گئی ہیں۔
جہاں 2023 بھارت کے عالمی وقار کے لیے ایک سنہری برس ہوگا، تاہم اتفاق رائے پر مبنی پالیسی کا فریم ورک تیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ ملک جی 20 کی صدارت افزوں قطبی شکل اختیار کرتے ہوئے عالمی نظام کے ماحول میں حاصل کرنے جا رہا ہے۔ روس – یوکرین مناقشہ سرحدی ترقیات ایجنڈوں کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے اور ارضیاتی سیاسی تعلقات جو دنیا کی سرکردہ طاقتوں کے مابین استوار ہیں، وہ افزوں پیمانے پر کشیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی معیشت اب ایک منڈراتی ہوئی مندی کی جانب بڑھ رہی ہیاور اب تک کی سب سے زیادہ عالمی قرض کی صورتحال سے ہمکنار ہونے کا خدشہ درپیش ہے۔ جہاں دوسری جانب ممالک ابتر ہوتی خوراک سلامتی اور رخنہ اندازی کی شکار سپلائی چین کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس ماحول میں بھارت کو یہ موقع حاصل ہو اہے کہ وہ ایک اتحاد کار اور ہم آہنگی کو فروغ دینے والے ملک کے طورپر سامنے آسکے۔ بالی میں جی 20 سربراہ ملاقات میں وزیر اعظم مودی کی قیادت میں ملک نے مسودہ جی20پریس بیان کے سلسلے میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں ایک ناگزیر کردار ادا کیا۔ وزیر اعظم کے یہ الفاظ ’’آج کا عہد جنگ کا عہد نہیں ہونا چاہئے۔ یہ الفاظ براہِ راست طور پر قائد کے اعلامیہ میں شامل کیے گئے، فیصلوں کے معاملے میں عائد جمود ختم ہوا اور امن کے پیامبر کے طور پر بھارت کی پوزیشن مستحکم ہوئی۔‘‘اب جبکہ طاقت کے قدیم مراکز نوجوانوں کے لیے جگہ خالی کررہے ہیں، فعال ممالک ایجادات پر مبنی اقتصادیات اور سماجی نمو سے ہمکنار ہو رہے ہیں، بھارت کی اولوالعزم ، حرکت و عمل سے مالامال صدار ت میں وہ مضمرات پنہاں ہیں جس کے ذریعہ وہ اس اعلیٰ سطحی اتحاد کو نسبتاً کم سہولت کے حامل مراعات سے محروم ممالک کے مفادات کی تکمیل کر سکتا ہے۔ اپنی صدارت کے دوران، بھارت عالمی چنوتیوں کو تبدیلی کے لیے مواقع میں بدلتا رہے گا۔ اسے یاد رکھنا ہوگا کہ تمام کوششیں ہمارے ایک کرۂ ارض یعنی ایک کنبہ ، ایک مستقبل کی جانب مرتکز ہونی چاہئے۔
(مضمون نگار، جی 20 شیرپا، حکومت ہند۔ نیتی آیوگ کے سابق سی ای او ہیں)
<[email protected]>