علِم بغیرِ تربیت کے ادھورا ہے! شخصیت سازی وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی

تعلیم کامیابی کی کنجی ہے ، تعلیم کے ذریعہ آدمی ترقی کے منازل طے کرتا ہے ، اسی سے عزت ملتی ہے ،اسی شہرت حاصل ہوتی ہے ،اسی سے مقام بھی حاصل ہوتا ہے ، تعلیم کی جگہ مدارس ،مکاتب ، تعلیمی ادارے اور اسکول ہیں ، ان اداروں میں انسان کتابوں سے علم حاصل کرتا ہے ، مگر علم بغیر تربیت کے ادھورا ہے ، یہی وجہ ہے کہ دینی اداروں میں ہمیشہ خصوصی تربیت اور شخصیت و رجال سازی کا انتظام کیا جاتا رہا ، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، تربیتی نظام میں کمی آتی گئی ۔مذکور خیالات کا اظہار مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی نے پریس ریلیز میں کیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ شخصیت و رجال سازی میں مدارس کا اہم کردار رہا ہے، زمانہ طالب علمی ہی سے طلبہ کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی رہی ، عادات و اطوار ، وضع قطع اور شعار پر خصوصی نگرانی کی جاتی ، درسی کتابوں کا تکرار کا خاص اہتمام کیا جاتا رہا ، تقریر کے مشق کے لئے انجمن قائم کئے جاتے رہے ، ہفتہ واری تقریری پروگرام کا انعقاد کیا جاتا رہا ، تحریر میں مہارت کے لئے پرچے لکھ کر دیوار پر لٹکائے جاتے ہیں ، یہ سب انتظامات طلبہ کی طرف سے کئے جاتے ، اساتذہ بھی اس میں حصہ لیتے ، یہ تربیت کا ابتدائی طریقہ ہے ،اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ، جہاںتک تعلیم سے فراغت کے بعد تربیت و رجال سازی کی بات ہے ، تو ماضی میں یہ سلسلہ زیادہ مضبوط تھا ، اکابر علماء اس جانب خصوصی توجہ دیا کرتے تھے ، اور خصوصی تربیت کا اہتمام بھی کرتے تھے ، ماضی میں اکابر علمائے زیادہ تر اسی تربیت سے پیدا ہوئے ، حضرت شیخ مدنی ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، شیخ فخر الدین مرادآبادی ، مولانا گیلانی ، سید سلیمان ندوی ، شیخ ابوالحسن علی ندوی وغیرہ اسی تربیت سے پیدا ہوئے ، موجودہ وقت میں تربیت کی جگہ خدمت نے لے لی ہے ، جس کی وجہ سے خدام تو پیداہوئے ، مگر تربیت یافتہ علماء پیدا نہیں ہوئے ، البتہ بعد کے زمانہ میں اس جانب توجہ دی گئی ، دینی و اسلامی علوم و فنون میں ریسرچ و تحقیق کے ادارے قائم کئے گئے ، جن میں رجال سازی پر توجہ ہے ، یہ قابل ستائش ہے ، مگر ان میں سے کچھ نمایاں افراد کو نکال کر ان کو آگے بڑھانے اور ان کو پروجیکٹ کرنے کا کام نہیں کیا جا سکا کہ وقت ضرورت ان کو پیش کیا جاسکے ، جبکہ موجودہ وقت میں اس کی سخت ضرورت ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ آج ذرائع ابلاغ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ، پوری دنیا ایک مٹھی میں آگئی ہے ، بہت سے لوگ میڈیا پر دین و شریعت کی بات کرنے لگے ہیں ، جبکہ اکثر کی باتوں میں کوئی جان نہیں ہوتی ہے ، بہت سے لوگ اپنے مسلک کا بھی پرچار کرنے لگے ہیں ، جس کی وجہ سے دین کے سلسلہ میں کم معلومات رکھنے والے ان کی باتوں میں پھنس رہے ہیں ، بہت سے انگریزی زبان جاننے والے دین کی باتیں کرتے ہیں ، مگر ان میں بہت سی خامیاں نظر آتی ہیں ، اگر جدید فارغین علماء کی تربیت اور رجال سازی کی جائے ، مختلف زبانوں میں ماہر بنایا جائے ، بین المذاہب مذاکرہ کی تربیت دی جائے ، اسلام اور دیگر مذہبی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کرایا جائے ، اور ایک گروپ تیار کیا جائے ، تو یہ کام موجودہ وقت کے اعتبار سے اہم ہوگا ، اس محاذ کو علماء زیادہ بہتر طریقہ پر انجام دے سکیں گے ،یقیناً یہ کام قدرے مشکل ہے ، مگر اتنا بھی مشکل نہیں ہے کہ اس کو نہیں کیا جا سکے ، بڑے تعلیمی ادارے اور ملی تنظیموں کے ذمہ داران اس کام کو اپنے ذمہ لے لیں ،تو کوئی مشکل نہیں ہے ، اور یہ موجودہ وقت کی بڑی ضرورت بھی ہے ، اللہ تعالی راستہ ہموار کرے۔
[email protected]>