عبد الاحد آزاد۔شاعرِ انسانیت شخصیات

میر امتیاز آفریں

عبد الاحد آزادؔ (1903-1948) جن کو کشمیری زبان و ادب کا اولین انقلابی ترقی پسند شاعر اور مورخ و نقاد تسلیم کیا جاتا ہے، ضلع بڈگام کے ایک گاؤں رانگر میں محمد سلطان ڈار کے یہاں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک معمولی زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والےصوفی مزاج بزرگ تھے۔ وہ دنیاوی معاملات میں تقویٰ شعار انسان تھے اور درویشانہ زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ یہ بات حیران کن ہے کہ ایک سماجی و تعلیمی لحاظ سے انتہائی پسماندہ دیہات میں کس طرح اس قسم کی اعلیٰ شخصیت نے جنم لیا اور مشکلات کے باوجود علم و ادب کے فروغ میں زبردست کردار ادا کیا۔
آزاد نے اپنے والد کی بدولت ایک روحانی اور ادبی ماحول میں شعور کی آنکھ کھولی اور قرآن مجید کے ساتھ ساتھ فارسی و عربی کی کچھ درسی کتب اپنے والد سے پڑھیں۔ بچپن سے ہی انتہائی ذہین اور باصلاحیت تھے۔ ان کے برادرِ اکبر نے گاؤں میں ہی ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی اور آزادؔ نے اس میں داخلہ لیتے ہوئے اردو و فارسی پر اچھی خاصی دسترس حاصل کرلی۔ آزاد کو بچپن سے ہی کتب بینی کا زبردست شوق تھا اور وہ زبان و ادب کے ساتھ ساتھ مذہبیات، سیاسیات اور سائنس کے میدانوں میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔ مطالعے کے ساتھ ہی ان میں لکھنے کا ذوق بھی پروان چڑھا اور انہوں نے شاعری کی طرف التفات کیا۔ سب سے زیادہ دلچسپی انہوں نے ادب کے مطالعے میں دکھائی اور فارسی، عربی، اردو اور کشمیری کے ادبی ورثے کا تنقیدی مطالعہ کیا جس نے نہ صرف ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی بلکہ ساتھ ہی ان میں تنقیدی و تحقیقی شعور بھی پیدا کیا۔

 

 

 

16 سال کی عمر میں ساتھ ہی کے گاؤں زوہامہ کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں آپ بطور عربی استاد تعینات ہوئے۔ملازمت پانے کے بعد آپ مطالعے میں زیادہ ہی مصروف ہوگئے اور عربی کے ساتھ ساتھ اردو، فارسی، دینیات، ریاضی، جغرافیہ اور تاریخ جیسے مضامین بچوں کو پڑھانے لگے۔ ملازمت کے بعد بھی آزادؔ نے تعلیم کو جاری رکھا اور اچھے نمبرات کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے منشی عالم پاس کیا۔انہوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ارادہ ظاہر کیا مگر بیماری کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکے۔آزاد نے خلیفہ عبدالحکیم، ایم اے سٹین، ڈاکٹر محی الدین صوفی، محمد الدین فوق اور مہجور جیسے اساطینِ علم و ادب سے استفادہ کیا اور شاعری اور علمی میدانوں میں اپنی ایک منفرد شناخت قائم کر لی۔
آزاد صحت کے حوالے سے زندگی بھر پریشان رہے، کسی نہ کسی وجہ سے زیر علاج رہنا ان کا معمول تھا۔ مشکل حالات کے باوجود وہ پڑھنے لکھنے میں انتہائی مصروف رہتے تھے۔

 

اپنے والد سے انہوں نے شعر و سخن ورثے میں پایا اور خود بھی ان میدانوں میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ شعر گوئی کے لئے انہوں نے اپنی مادری زبان کشمیری کو چنا اور غزل کی طرف متوجہ ہوئے اور آگے انہوں نے دیگر اصناف سخن کی طرف بھی رجوع کیا۔مہجور کے ساتھ شعر و سخن کے حوالے سے ان کے گہرے مراسم رہے۔ آزادؔ مہجورؔ کو اپنا استاد سمجھتا تھا اور مختلف موضوعات پر ان کے ساتھ گفت و شنید ہوا کرتی تھی۔ جب آریگام (بڈگام) میں مہجورؔ کی ملازمت کے حوالے سے ٹرانسفر ہوئی تو دونوں آپس میں ملنے لگے اور ان میں خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔ ایک خط میں مہجورؔ آزادؔ سے کچھ اس طرح سے مخاطب ہوتے ہیں:

 

 

“آپ مجھ سے کچھ میل کے فاصلے پر ہیں۔ان تمام باتوں کے باوجود دو ماہ (60یوم) سے نیاز حاصل نہ ہوا۔ اس عرصہ میں جرمن سے جو پارٹی آئی اس نے ننگا پربت کو سر کردیا۔ مقامِ حیرت ہے کہ آپ کے لئے کاہنر کی پہاڑی ننگا پربت اور نالہ شالی گنگا بحیر روم سے زیادہ مشکل اور ناقابل عبور ثابت ہوئے۔۔۔آخر مہجورؔ مہجور ہی رہا۔”

 

 

شاعری میں آزاد نے مہجور کا اثر تو قبول کیا مگر ان کے اندھے مقلد نہیں بنے بلکہ اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہوئے انہوں نے نئی بلندیوں کو سر کیا۔

 

 

آزاد کی زندگی انتہائی تلخی سے گزری۔ ایک طرف صحت کے مسائل سے عمر بھر جھوجھتے رہے، دوسری طرف مصائب وآلام نے انہیں کبھی چین کی سانس لینے نہ دی۔آزاد چونکہ کمزوروں اور مظلوموں کے حق میں حکومتِ وقت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے تھے اس لئے حکومت کے ساتھ ان کی زبردست چپقلش رہی۔ سزا کے طور پر انہیں گھر سے بہت دور ترال کے ایک مڈل اسکول میں ٹرانسفر کیا گیا۔ ان کو بہت تنگ کیا گیا حتیٰ کہ آپ کا چار برس کا اکلوتا بیٹا سخت بیمار ہوگیا اور آزاد ان سے دور خانقاہِ شاہ ہمدانؒ ترال میں اس کی صحتیابی کے لئے دعائیں کرتے رہے مگر قدرت الٰہی کو کچھ اور ہی منظور تھا اور وہ چل بسا۔ اس صدمے نے پہلے تو ان کو اندر سے توڈ کر رکھ دیا لیکن بعد میں غمِ ہستی سے بے پرواہ ہوکر وہ ‘آزاد ہوگئے۔زندگی کے آخری دور میں وہ سرسیار (بڈگام) کے ایک مدرسے میں ٹرانسفر ہوئے اور وہیں ان کی صحت پھر سے خراب ہوگئی اور 45 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اپنے والد سلطان ڈار کی قبر کے پاس ہی اپنے آبائی گاؤں رانگر میں وہ دفن ہوئے۔
عبد الاحد آزاد کشمیری زبان و ادب کے پہلے نقاد و محقق تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اس دور میں جب کشمیری زبان کا کوئی حقیقی قدردان دیکھنے کو نہ ملتا تھا، آزاد نے “کشمیری زبان اور شاعری” جیسی معرکۃ الآراء کتاب تصنیف فرمائی اور تحقیقی، تاریخی اور ادبی زاویوں سے کشمیری زبان و ادب کو جانچا پرکھا۔ انہوں نے کشمیری زبان کی پوری ادبی روایت کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ پیش کیا اور درجنوں شعراء و ادباء کے تذکروں سے اپنی کتاب کو مزین کیا اور اس طرح یہ کتاب ایک گرانقدر تاریخی دستاویز بن گئی۔ اس کتاب کو آج بھی آزادؔ کا شاہکار (masterpiece) تسلیم کیا جاتا ہے۔
عبد الاحد آزاد کشمیری زبان کے ایک عظیم انقلابی شاعر ہیں جنہوں نے صوفی و رومانوی شاعری کے عام رواجوں سے ہٹ کر نئے مطالب و مضامین سے کشمیری شاعری کو آشنا کیا۔ وہ بامقصد شاعری یعنی ادب برائے زندگی( Art for Art’s Sake)کے قائل ہیں۔
ان کی شاعری کا زیادہ تر فوکس focus فطرت اور انسانیت ہے۔ وہ Radical Humanism کے علمبردار تھے اور انسانی حقوق، سماجی انصاف اور رواداری جیسے اقدار کی سربلندی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو وقف کرتے ہیں ۔ ان کی نظر میں شاعری کا مقصد محض تفنن نہیں بلکہ وہ شاعری کو سماجی انقلاب social reform لانے کا ایک موثر ذریعہ قرار دیتے ہیں۔

 

 

ترقی پسند تحریک کے ساتھ فکری یکسوئی رکھنے کی وجہ سے وہ استعماری و استبدادی طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری میں مذہب اور رنگ و نسل کے نام پر لوگوں کا استحصال کرنے والے افراد و طبقات کا شدید رد کرتے ہیں۔ وہ ہندو مسلم بھائی چارے کو کشمیری ثقافت کا جزو لاینفک قرار دیتے ہیں اور ہمیشہ مساوات و اخوت کی بات کرتے ہیں۔کسی حد تک ان کا موازنہ انگریزی زبان کے معروف رومانوی شاعر شیلے PB Shelley کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جن میں رومانوی مواد کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی جذبہ پایا جاتا ہے۔
‘دری یاو، ‘شکوہ کشمیر، ‘آفتاب، ‘سوال جیسی نظمیں آج بھی کافی مقبول ہیں اور انسانی جذبات و احساسات کو تحریک دیتی رہتی ہیں۔
ایک طرف علامہ اقبال کا فلسفہ خودی انہیں جوہرِ عمل سے آشنا کرتا ہے تو دوسری طرف مہاتما گاندھی جیسی شخصیات سے وہ خدمتِ انسانیت کا درس لیتے ہیں۔ ان کی نظر میں مظلوموں اور کمزوروں کی دادرسی اور انسانی حقوق کی پاسداری سب سے بڑی عبادت ہے اور انسان کو اسی مقصد کےلئے اپنی ساری صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہئے۔
[email protected]