ضمیر فروش افسانہ

رحیم رہبرؔ

 

اُس نے لاش کو اپنا ساتھی بنایا تھا۔ وہ لاش سایہ کی طرح ہمیشہ اُس کے ساتھ ہوتی تھی۔ لاش کے ساتھ اُس کے کونسے اتنے گہرے تعلقات تھے؟ اس سوال کا جواب جوزی کے پاس تھا۔ لیکن جوزی خاموش تھی!
وہ کربناک منظر ابھی بھی میری آنکھوں میں بسا ہے۔ جب جوزی نے لاش کو ننگے فرش پر رکھا۔ اُس نے اُس کی خواب دیدہ آنکھوں میں سُرمہ لگادیا اور اس پر عرقِ گلاب کا چھڑکائوکیا۔ پھر اُس نے اُس کے دونوں ہاتھ مہندی سے رنگ دیئے۔ اُس نے سسکیاں بھرتے ہوئے لاش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’پگلی! میں نے جو تُم سے کہا تھا خواب مت دیکھا کرو۔۔۔۔ اب افسوس کے بغیر تمہیں کیا ملا؟ ۔۔۔ دس سال نو مہینے بیت گئے۔۔۔ پر تُم ہنوز تعبیر کے لئے تڑپ رہی ہو۔ ۔۔۔ تمہارے ریشم جیسے سیاہ بال برف کی مانند سفید ہوگئے۔۔۔۔ آنکھوں کی بینائی کمزور ہوگئی۔۔۔۔ تمہارا گلاب سا چہرہ سُکڑ گیا۔ پر کیا ملا!؟ لکیروں کو کھنگالتے کھنگالتے ایک بدصورت سی تصویر اُبھر کر آئی۔۔۔۔ وہ ہاں۔۔۔۔ وہ بدصورت تصویر کسی اور کی نہیں۔۔۔۔ تمہاری ہے! تُم اب اِس بدصورت تصویر سے کہیں نہیں بھاگ سکتی ہو۔ تمہاری حسین یادوں کی داستان اب پھیکی پڑ گئی ہے۔ اس داستان کا لفظ لفظ مہمل ہے۔ تم جھیل ڈل کی مانند اکیلی خُود پُر نوحہ کررہی ہو!یہاں کو ن ہے۔۔۔ جو تمہاری نوحہ خوانی سُنکر تم پر مہربان ہوگا۔ ارے یہاں ہر ایک اپنی لاش کے ہمراہ چل رہا ہے! یہ حادثوں کا شہر ہے۔۔۔ یہاں کوئی بھی کسی کا ہمدم ہو نہیں سکتا۔۔۔‘‘
’’مگر۔۔۔ مگر یہ لاش میری اپنی ہے۔۔۔ اس کو میرا سننا پڑے گا۔‘‘ جوزی بولی۔
’’لیکن تُم کب تک لاش کے جواب کا انتظار کرو گی؟‘‘
’’جب تک وہ سودا گر مال سمیت واپس نہیں آئے گا‘‘۔
جوزی نے دفعتاً جواب دیا۔
’’میں۔۔۔۔ میں سمجھا نہیں۔‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
جوزی نے میری ایک نہ سُنی۔ اُس نے لاش کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور چلی گئی۔
ایک دن جوزی اکیلی لاش کے بغیر میرے آفس میں نمودار ہوئی۔
’’جوز! لاش کہاں پہ چھوڑ کے آئی ہو؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’میں لاش کو اُس کے حوالے کرکے آئی ہوں‘‘۔
’’کیا۔۔۔!؟‘‘ میں نے انہماک سے پوچھا۔
آنسوئوں سے جوزی کی آنکھوں کا سارا کا جل دُھل گیا۔
’’وہ لاش میں اُس کے سپرد کرگئی جس نے میری مونولیزا کو قتل کردیا۔‘‘
’’مونولیزا۔۔۔۔!؟‘‘ میں نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔ مونولیزا میری بڑی بہن جو رؤف کے کالے کرتوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئی!‘‘
رؤف کا نام سنکر میرے پائوں تلے زمین کھسک گئی۔
’’رؤف!؟ــ‘‘ میں نے جوزی سے پوچھا
’’ہاں۔۔۔ہاںہاں۔۔۔ رؤف ۔۔۔ وہی رؤف جو نشیلی ادویات کا دو نمبری گھٹیاکام کرتا تھا۔ میری بہن نگہت جسکو ہم سب پیار سے مونولیزا کہتے تھے ، نے اپنے شوہر کو یہ ذلیل کام چھوڑنے کے لئے کہا۔ پر بدبخت رؤف نے اُس کی ایک نہ سُنی ۔ میری بہن مونولیزا نے پولیس سے رابطہ کیا۔
جب رؤف کو میری بہن کی مخبری کا علم ہوا۔ اُس نالائق نے نگہت کو مار ڈالا۔۔۔! لیکن وہ کمینہ میرے فریم سے مونولیزا کی حسین تصویر کو جُدا نہیں کرسکا۔!

���
آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ، بیروہ
موبائل نمبر؛9906534724