صوفیا ئے کرام کا پیغام ِمحبت اور تکثیری سماج معلومات

فاروق ارگلی

ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی1857ء میں کامیابی کے بعد برطانوی حکومت نے اکثریت اور اقلیت کی یکجہتی اور ہم آہنگی کو اپنے اقتدار کے لیے خطرناک سمجھتے ہوئے سب سے پہلے ملک کی تاریخ بدلنے پر خاص توجہ مرکوز کی جس کے لیے خاص قسم کے مؤرخین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ہندوستان کے ہندو مسلم عوام کے مابین نفرت پھیلانے کے لیے اس سے زیادہ آسان اور کوئی کام ہوہی نہیں سکتا تھا کہ تاریخ کے ایسے مسلم کرداروں اور واقعات منتخب کیے جائیں جو کچھ نہ کچھ متنازع رہے ہوں۔ انگریزوں اور ان کے ہندوستانی حلیف مورخین نے مبالغہ آرائی میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردیں، لیکن اس سب کے باوجود برطانوی ذہن شاید اس سرزمین کے مزاج کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا کہ نوے برسوں تک اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں گھڑی گئی وہ تاریخ پڑھائی جانے کے باوجود آزادی کی فیصلہ کن لڑائی اکثریت اور اقلیت نے ایک ساتھ مل کر لڑی اور بالآخر ہندوستان غیرملکی تسلط سے آزاد ہوگیا۔ تاہم دنیا کی اس شاطر ترین قوم کی رچی ہوئی سازش اس طرح کامیاب ہوئی کہ ہندوستان ٹکڑوں میں بنٹ گیا، یہ تقسیم مذاہب کے نام پر ہوئی۔ انسانی خون کی ندیاں بہیں، اس قیامت صغریٰ کے ہنگاموں میں بہت سے لوگ اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر آئے گئے، لیکن ہمارے دُوراندیش سیاسی رہنماؤں اور اقلیتی عوام نے اپنے محبِ وطن علماء اور صوفیائے کرام کی انسانی اور روحانی تعلیمات پر قائم رہتے ہوئے اپنی قدیم مشترکہ تہذیب اور وطن عزیز کی مٹی سے جدا ہونا گوارا نہیں کیا۔ اقلیت کی اکثریت نے اپنی سرزمین پر مرنے اور جینے کا فیصلہ کیا۔ یہ مشترکہ تہذیب اور رواداری کی مضبوط روایت کا ہی اثر تھا کہ جس نے ہندوستان کو عظیم سیکولر جمہوریہ بنادیا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک صدی تک پلایا گیا زہر بھی ملک کی ایک ذہنیت کی شریانوں میں دوڑتا رہا، یہ ذہنیت اپنے فکری آقاؤں سے وراثت میں ملی سوچ کے ساتھ شروع سے ہی اکثریت اور اقلیت کے درمیان نفرت و عداوت کی دیوار کھڑی کرتی رہی،شدھی تحریک اور منافرت پیدا کرنے والے واقعات کی ایک طویل داستان ہے۔ آزادی کے بعد بنام جمہوریت حصولِ اقتدار کے لیے اس کی جدوجہد جاری رہی، اور جب وہ کامیاب ہوئی تووہ ذہن اپنے اقتدار کو دیرپا بنانے کے لیے اُسی عمل کو دہرانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جو انگریز جاتے جاتے تحفے میں دے گئے تھے۔ بزعم خود یہ نام نہاد تکثیری قوت ایک بار پھر سے ملک کی تاریخ مرتب کرنے کا اعلان کررہی ہے، ملک کی فضا کو اس درجہ مسموم کردیا گیا ہے کہ اس کا یہ منصوبہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوسکتا ہے۔ اقتدار کیا کچھ نہیں کرسکتا، تاریخ کو فکشن کی طرح لکھا جاسکتا ہے، مفتوح کو فاتح اور غدار کو محبِ وطن بنایا جاسکتاہے۔ نئی نسلوں کے لیے نیا نصابِ تعلیم نافذ کیا جاسکتاہے۔ شہروں اور سڑکوں کے نام بدلے جاسکتے ہیں اور حسب ضرورت سبق بھی سکھایا جاسکتاہے۔ اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے بالادست قوتوں کے لیے تمام انسانی اور اخلاقی ضابطے بے معنی ہوجاتے ہیں۔ لیکن! یہ ایک لفظ ’لیکن‘ نوزائیدہ مورخی کے سامنے یہ پرانا سوالیہ نشان ایک بار پھر کھڑا کررہا ہے کہ ایک چھوٹی سی اقلیت صدیوں تک اس وسیع و عریض ملک پر حکمرانی کیسے کرسکی؟
اگر اس مفروضے کو تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے ’’تلوار اور قوت کے بل پر‘‘ تو کیا اس دیش کے تکثیری سماج کا اپمان کرنا نہیں ہوگا جس کے سپوتوں کے کارناموں سے ہمارے دھارمک گرنتھوں اور قدیم تاریخ کے اوراق روشن ہیں؟ تو پھر یہ کیونکر ممکن ہوسکا کہ باہر سے آئے مٹھی بھر عرب، ترک، ایرانی اور افغانی صدیوں تک بھارت ورش پر راج کرتے رہے اور ان کے اس صدیوں طویل عہد اقتدار میں پراچین سناتن دھرم، بودھ دھرم، جین دھرم، سکھ مت اور دوسری مختلف آستھائیں اور پرمپرائیں اپنی اپنی شان اور پہچان کے ساتھ قائم رہے اور ان کے ساتھ ساتھ ہی ایک اللہ اور ایک رسول والا اسلام بھی فروغ پاتا رہا۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا تاریخ بدلنا یا بگاڑنا بہت آسان عمل ہے۔ اتیہاس کو ویررس کی گاتھا بنا دینا، ایسے واقعات تلاش کرلینا یا تراش لینا جن سے اپنے مقاصد کی تکمیل ہوتی ہو، بیحد آسان کام ہے لیکن اس تناظر میں یہ بات بھی دعوے اور چیلنج کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اقتدار کی بالادستی، ہر ذریعۂ ابلاغ پر مکمل گرفت اور وسائل کی فراوانی کے باوجود اکثریت کی اکثریت اس خوبصورت مشترکہ تہذیب سے دستبردار ہونے پر پوری طرح آمادہ نہیں ہوسکی جس میں امن ہے، رواداری ہے، اخوت ہے، محبت ہے، بھائی چارہ ہے، ایسی سماجی یک رنگی اور سانجھی سنسکرتی کو بیک جنبشِ قلم مٹا دینا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ جس کی آبیاری بزرگانِ دین، صوفیائے کرام اور سادھو سنتوں نے پریم، بھکتی اور روحانیت کے لازوال جذبوں کے ساتھ کی ہو، اور اس سرزمین کو رنگارنگ پھولوں کا ایسا خوبصورت گلدستہ بنا دیا ہو جس کی خوشبو نے پورے برصغیر کو مہکا دیا ہو۔
پھر بھی مہابلی اگر اتیہاس بدلنے پر بضد ہیں تو سواگت ہے۔ اس مہان کاریہ میں سب سے پہلے آپ برصغیر کی عالمگیر آواز اُردو کو مصلحتاً ہی سہی نظرانداز کرکے راج بھاشا ہندی کی اور دھیان لگائیں اور ہوسکے تو ہندی بھاشا اور سنسکرتی سے امیر خسرو کو نکال دیں۔ وہ امیر خسرو جنھیں بلاتفریق مذہب و ملت خدا کے بندوں سے محبت اور احترامِ آدمیت کا اسلامی، روحانی اور اخلاقی سبق حضرت خواجہ غریب نوازؒ، حضرت بابا فرید گنج شکرؒ،حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ اورمحبوبِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ سے ملا تھ، جنھیں اپنے پیارے وطن اور تمام اہل وطن سے محبت اپنی ماں کی گود سے ملی تھی۔ قدرت نے ان کو غیرمعمولی علوم و فنون اور ذہانت بخشی وہ اُس سچے اسلامی، روحانی، انسانی اور اخلاقی مشن کے علمبردار بنے جس کا مقصد مذہبی رواداری اور کشادہ دلی کے ساتھ دھرم، مذہب اور اُونچ نیچ کے ہر بھیدبھاؤ سے اوپر اُٹھ کر خلق اللہ کو امن و شانتی کے ساتھ جینے کا پیغام دینا تھا۔بھلا اس خوبصورت حقیقت کو دُنیا کا کونسا تاریخ دان بدلنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ ہندو مسلم مشترکہ تہذیب کی اساس صوفیائے کرام کی وسعت قلب، کشادہ ذہنی، اسلامی مساوات اور انسانی قدروں پر قائم ہوئی۔ حضرت امیر خسرو نے بھارت کے مختلف خانوں میں بنٹے ہوئے منتشر سماجوں کو بشمول عربی، ایرانی، ترکی، افغانی مسلم سماج کو ایک لڑی میں پروکر ایک متحد اور مضبوط ہندوستانی سماج بنانے کے لیے اس دیش کی مٹی سے اُپجی پراکرتوں، دہقانی بولیوں، اَپ بھرنشوں، سنسکرت، فارسی، عربی اور ترکی زبانوں کے آمیزے سے ہندوی یا ریختہ کی صورت میں ایسی جاندار عوامی زبان کی تشکیل کی جس نے بھارت کی دھرتی کو سچ مچ ایک خوبصورت حسینہ بنا دیا۔بقول سرسیّد ہندی اور اُردو جس کی دو خوبصورت آنکھیں ہیں اور جس کے حسن جہاںتاب نے پورے بھارتیہ سماج کو ہی نہیں تمام اقوامِ عالم کو بھی حیرت زدہ کردیا ہو، کیا پورے ہندی، اُردو ادب سے خسرو کو الگ کیا جاسکتا ہے؟اور کیا نفرت کی تاریخ دانی اس حقیقت کو جھٹلا سکتی ہے کہ ایک مسلمان صوفی ہوتے ہوئے بھی حضرت امیرخسرو نے اپنی شاندار فارسی شاعری میں یہاں کے دھرموں، عقیدوں، رسموں، رواجوں، لیاقتوں، صلاحیتوں، موسموں، دریاؤں، مویشیوں، پرندوں، پھولوں، پھلوں اور کھیتوں کھلیانوں کی مہیما کا گن گان اس طرح کیا ہو کہ ان سے پہلے ہندوستانی ساہتیہ میں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
بلاشبہ حضرت امیر خسرو کو بھارت کا سب سے پہلا سانسکرتک راجدوت یا تہذیبی سفیر کہا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ میں ایسی ہمہ جہت شخصیت تلاش کرنا مشکل ہے کہ دنیوی، دینی اور روحانی علوم سے آراستہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے چہیتے مرید ہوتے ہوئے انھوں نے ہندوؤں کے مشرکانہ عقائد اور بت پرستی میں بھی توحید کا عکس تلاش کیا ہو اور جن کی بعض سماجی خرابیوں میں بھی اچھائی کا پہلو دیکھ کر اُن کی تعریف کی ہو، سات سات مسلمان بادشاہوں کے درباری، مصاحب اور مشیر اپنے مرشد حضرت محبوبِ الٰہی کے سائے میں سلوک و معرفت کے مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے تاریخ ساز کارنامے کردِکھائے جن کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ خسرو کے ہر عمل کو حضرت خواجہ نظام الدین ولیاء محبوبِ الٰہیؒ کی رضامندی اور خوشنودی حاصل تھی کیونکہ یہی تو صوفیائے کرام کا نصب العین، مشن یا مقصد تھا کہ ہندوستان میں مساوات، انسانی ہمدردی، سماجی برابری اور امن و اتحاد کو فروغ دیا جائے۔ صوفیائے کرام کے اسی طرزِ عمل سے چھوت چھات، اُونچ نیچ اور جبر و استحصال کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہندوستان میں اسلام کی انقلابی روشنی تیزی سے پھیلی۔ اتیہاس بدلنے والے دماغ انگریزوں کی طرح اس حقیقت کو تلوار، حکومت کی قوت وغیرہ کوئی بھی عنوان دے سکتے ہیں لیکن بقول حضرت مولانا سیّد سلیمان ندوی:’’اگر یہ کہنا صحیح ہے کہ ہندوستان کو غزنی اور غوری بادشاہوں نے فتح کیا تو اس سے زیادہ یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان کی روح کو خانوادۂ چشت کے روحانی سلاطین نے فتح کیا۔‘‘ (نقوشِ سلیمان، ص22)
اس دور میں جو کام اس دور میں دہلی میں بیٹھ کر حضرت امیر خسرو کررہے تھے وہی کام سرزمینِ بنگالہ یعنی بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے وسیع علاقے میں حضرت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیریؒکررہے تھے، جنھوں نے اپنے ’صدی مکتوبات‘ کے ذریعہ نہ صرف اُس عہد کے ہندوستان کی تاریخ کو روشن کیا بلکہ مقامی بولیوں کے امتزاج سے حضرت امیرخسرو کی ہندوی یا ریختہ کی تشکیل میں نمایاں حصہ لیا۔ اس عہد کے بہت سے صوفیائے کرام نے ملک کے تمام اہم خطوں میں روحانیت اور انسانی قدروں کے چراغ روشن کئے۔(مضمون جاری ہے)
رابطہ۔9212166170
[email protected]
�������������������