سول سروسز کا بھیانک بھوت حسبِ حال

معراج زرگر

کل کے یو۔پی۔ایس۔سی امتحانات کے نتائج کے ساتھ ہی ایک بار پھر ایک عجیب سا ماحول پیدا ہوا ہے۔ ہر شخص کی جہاں بھی کسی زیر تعلیم یا تعلیم یافتہ بچے تک رسائی ہے اور وہ زیر تعلیم بچہ یا بچی اگر ابھی کچھ حاصل نہیں کر پائے ہیں تو وہ طعنوں اور غیر فطری رد عمل سے پہلے سے ہی پریشان تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو اور پریشان کر رہی ہے۔
ذرا ایک نظر سول سروسز امتحانات کے اعداد و شمار پر دوڑائیں۔ معلوم اعداد و شمار کے مطابق تقریبا ساڑھے گیارہ لاکھ امیدواروں نے پریلیمز امتحانات میں شمولیت کی اور ان میں سے 13090 امیدواروں نے مین امتحان پاس کیا۔ جن کو انٹر ویو کے لئے بلایا گیا، اور آخر کار 933 امیدواروں کو کامیاب قرا دیا گیا۔ جن میں 345 جنرل زمرے اور باقی مخصوص سیٹوں یعنی کیٹیگری سے کامیاب ہوئے۔ جن میں او۔بی۔سی کی 263, ای۔ڈبلیو۔ایس کی 99, ایس۔سی کی 154 اور ایس۔ٹی کی 72 سیٹیں ہیں۔
جنرل کیٹگری کا کٹ آف میرٹ 960 اور مخصوص کیٹگری کا کٹ آف میرٹ 590 ٹھرا۔ لڑکیوں نے لڑکوں سے زیادہ میدان مار لیا۔ امیدواروں کی کامیابی کی شرح 0٠2 فیصد رہی۔

 

کچھ مہینے پہلے جموں کشمیر سول سروز امتحانات کے نتائج کا اعلان بھی ہوا تھا۔ ان سارے امتحانات کو کل ملاکر سوشل میڈیا پر ہر ایرا غیرا نتھو خیرا صحافی کرن تھاپر بنا ہوا ہے اور ہر کامیاب امیدوار نیل کو کوئی خلائی مخلوق بنایا جا رہا ہے۔ یہ بات عرض کرتے چلیں کہ کسی کو نہ تو صحافیوں کی تگ و دو سے کوئی جلن ہے اور نہ ہی کسی کو خلائی مخلوق کی چاند پہ قدم بوسی پہ اعتراض ہے۔ مسئلہ ذرا سنگین نوعیت کا ہے۔
جموں و کشمیر پبلک سروس کمیشن کی 26 فروری 2021 کی نوٹیفیکیشن پر موجود اعداد و شمار کے مطابق 20790 امیدواروں نے ابتدائی امتحان یعنی پرلمز میں شمولیت کی۔ پبلک سروس کمیشن کے ضابطے کے مطابق 4462 امیدواروں نے ابتدائی امتحان پاس کیا،جن میں سے 3916 نے سارے پرچہ جات میں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد ان سارے افراد نے Mains میں شمولیت کی اور اعدادو شمار کے مطابق 648 امیدواروں نے Mains میں کامیابی حاصل کی۔ اور ایک مرتبہ آخری مرحلے میں پھر انٹرویو اور پرسنلٹی ٹیسٹ کے بعد 187 امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ان تمام کامیاب قرار دئے گئے امیدواروں میں سے 110 ایسے امیدوار ہیں جو ریزرویشن جیسے RBA, EWS, SC, STGB, وغیرہ وغیرہ کی سیٹوں پر کامیاب ہوئے اور فقط 77 ایسے امیدوار ہیں جو اوپن میرٹ میں کامیاب ہوئے۔ زیادہ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک بہت بڑی تعداد ان ریزرویشن والوں کی ایسی ہے جو خوشحال اور آسودہ حال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کی اسکولنگ ،کالج ،یونیورسٹی شاندار طریقے سے ہوئی ہے۔

 

 

دونوں مسابقتی امتحانات میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ایک اچھی خاصی تعداد ایسے امیدواروں کی ہے، جنھوں نے اپنا خون پسینہ بہا کر اور راتوں کی نیندیں قربان کرکے کامیابی حاصل کی، وہ واقعی کامیابی کے لائق ہیں۔
اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اکثر امیدوار ایسے مضامین اپنا کر کامیاب ہوئے ہیں، جن کو پڑھنا یا رٹنا قدرے آسان ہے اور بہت سارےامیدوار جن کی اسپیلائزیشن میڈیکل ،انجینرنگ ،سائنس، ٹیکنالوجی وغیرہ کے مضامین میں ہےوہ تاریخ ،پولیٹکل سائنس، جغرافیہ، اینتھروپالوجی، پبلک ایڈمینسٹریشن ،اردو،سوشیالوجی وغیرہ مضامین کا انتخاب کرکے کامیاب ہوئے۔
جس سنگین صورت حال کا میں نے ذکر کیا، وہ اصل میں یہ ہے کہ سول سروسز کو کامیابی کا معیار بنا کر ہماری ایک بہت بڑی نوجوان نسل کو اور ان کے مستقبل کے ساتھ ساتھ ،ان کے محدودذرائع آمدن پر ایک منصوبے کے تحت ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جیسے ہمارے انجینرنگ اور میڈیکل کے لئے دربدر لاکھوں بچوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔

 

 

کشمیر سول سروسز میں جن 648 میں سے 461 انٹر ویو وغیرہ میں ناکام قرار دئے گئے،اور جن لاکھوں انڈین سول سروسز کے ڈراپ امیدواروں کو کامیابی نہیں ملی۔کیا وہ کچھ بھی نہیں، اور جو سول سروسز نہیں کر رہےکیا ان کا کوئی معیار ہی نہیں۔ کیا سینکڑوں کی تعداد میں امریکہ ،یورپ ،روس ،جرمنی ،وسط ایشیا،عرب ممالک اور دنیا بھر کے باقی ممالک میں ہمارے اپنے سائنس دان ،پروفیسر،بزنس کلاس ،انجینیراور جدید ٹیکنالوجی کے ماہرین کچھ بھی نہیں۔ کیا ایسے افراد جن کی قوم و ملت کے لئے خدمات آسمان کی اونچائیوں تک گواہی دے رہی ہیںکیا ان کا کوئی معیار نہیں۔
کیا کھیتوں کھلیانوں،فیکٹریوں،بازاروں،پہاڑوں،سمندروں کی وسعتوں،افلاک کی اونچائیوں زمیں کی گہرائیوں سے روزی نکال کر ملک و قوم کو روشن کر رہے ہیں۔ کیا وہ نیچ مخلوق ہے۔ کیا سول سروسز کوئی اللہ دین کا چراغ اور آپ حیات ہے کہ بس جسے مل گیا وہ سرخرو ہوا، باقی کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا۔

 

 

خواب دیکھنا کوئی جرم نہیں اور خواب دیکھنا ہر انسان کا حق ہے۔ لیکن خوابوں کی دنیا میں رہنا احمقوں کا کام ہے۔ والدین بچوں کو مجبور نہ کریں اور نہ بچے جھوٹے خوابوں کے سہارے جینے کی امیدو آس لگائیں۔ جتنا قیمتی سیکریٹیریٹ میں سینیر سول سرونٹ ہے، اس سے زیادہ دور کسی بہک میں بھیڑیں چرانے والا ایک جوان ہے۔ دونوں کائنات کی اسکیم کے کارندے ہیں۔
[email protected]>