زِنا۔ نسلِ انسانی اور تمدن کی جڑ کاٹ دیتی ہے انتباہ

عبدالعزیز
فعل زنا کے ساتھ کئی اجتماعی مظالم کا قریبی اور گہرا رشتہ ہے۔سب سے پہلے ایک زانی اپنے آپ کو امراضِ خبیثہ کے خطرے میںڈالتا ہے اور اس طرح نہ صرف اپنی جسمانی قوتوں کی اجتماعی افادیت میں نقص پیدا کرتا ہے، بلکہ جماعت اورنسل کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ سوزاک کے متعلق ہر طبیب آپ کو بتا دے گا کہ مجرائے بول کا یہ قرحہ شاذ و نادر ہی کامل طور پر مندمل ہوتا ہے۔ ایک بڑے ڈاکٹر کا قول ہے کہ ’’ایک دفعہ سوزاک ہمیشہ کیلئے سوزاک‘‘۔اس سے جگر، مثانہ، انثیین وغیرہ اعضا بھی بسا اوقات آفت رسیدہ ہوجاتے ہیں۔ گٹھیا اور بعض دوسرے امراض کا بھی یہ سبب بن جاتا ہے۔ اس سے مستقل بانجھ پن پیدا ہوجانے کا بھی امکان ہے اور یہ دوسروں کی طرف متعدی بھی ہوتا ہے۔ رہا آتشک تو کس کو معلوم نہیں کہ اس سے پورا نظام جسمانی مسموم ہوجاتا ہے۔ سر سے پاؤں تک کوئی عضو بلکہ جسم کا کوئی جز ایسا نہیں جس میں اس کا زہر نفوذ نہ کر جاتا ہو۔ یہ نہ خود مریض کی جسمانی قوتوں کو ضائع کرتا ہے بلکہ ایک شخص سے نہ معلوم کتنے اشخاص تک مختلف ذرائع سے پہنچ جاتا ہے، پھر اس کی بدولت مریض کی اولاد اور اولاد کی اولاد تک بے قصور سزا بھگتتی ہے۔ بچوں کا اندھا، گونگا، بہرہ، فاتر العقل پیدا ہونا، لطف کی ان چند گھڑیوں کا ایک معمولی ثمرہ ہے جنھیں ظالم باپ نے اپنی زندگی کی متاعِ عزیز سمجھا تھا۔
(2 امراضِ خبیثہ میں تو ہر زانی کا مبتلا ہوجانا یقینی نہیں ہے مگر ان اخلاقی کمزوریوں سے کسی کا بچنا ممکن نہیں جو اس فعل سے لازماً تعلق رکھتی ہیں۔ بے حیائی، فریب کاری، جھوٹ، بدنیتی، خود غرضی، خواہشات کی غلامی، ضبط نفس کی کمی، خیالات کی آوارگی، طبیعت میں ذوّاقی اور ہرجائی پن اور نا وفاداری، یہ سب زنا کے اخلاقی اثرات ہیں جو خود زانی کے نفس پر مترتب ہوتے ہیں۔ جو شخص یہ خصوصیات اپنے اندر پرورش کرتا ہے اس کی کمزوریوں کا اثر محض صنفی معاملات ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی طرف سے یہی ہدیہ جماعت کو پہنچتا ہے۔اگر جماعت میں کثرت سے لوگوں کے اندر یہ اوصاف نشو و نما پاگئے ہوں تو ان کی بدولت آرٹ اور ادب، تفریحات اور کھیل، علوم اور فنون، صنعت اور حرفت، معاشرت اورمعیشت، سیاست اور عدالت، فوجی خدمات اور انتظام ملکی، غرض ہر چیز کم و بیش ماؤف ہوکر رہے گی۔ خصوصاً جمہوری نظام میں تو افراد کی ایک ایک اخلاقی خصوصیت کا پوری قوم کی زندگی پر منعکس ہونا یقینی ہے۔ جس قوم کے بیشتر افراد کے مزاج میں کوئی قرار و ثبات نہ ہو اور جس قوم کے اجزاء ترکیبی وفا سے، ایثار سے اور خواہشات پر قابو رکھنے کی صفات سے عاری ہوں اس کی سیاست میں استحکام آخر آئے گا کہاں سے؟
(3 زنا کو جائز رکھنے کے ساتھ یہ بھی لازم ہوجاتا ہے کہ سوسائٹی میں فاحشہ گری کا کاروبار جاری رہے۔جو شخص یہ کہتا ہے کہ ایک جوان مرد کو ’’تفریح‘‘ کا حق حاصل ہے وہ گویا ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں ایک معتدبہ طبقہ ایسی عورتوں کا موجود رہنا چاہئے جو ہر حیثیت سے انتہائی پستی و ذلت کی حالت میں ہوں، آخر یہ عورتیں آئیں گی کہاں سے؟ اسی سوسائٹی ہی میں سے تو پیدا ہوں گی۔ بہر حال کسی کی بیٹی اور بہن ہی تو ہوں گی، وہ لاکھوں عورتیں جو ایک ایک گھر کی ملکہ، ایک ایک خاندان کی بانی، کئی کئی بچوں کی مربّی بن سکتی تھیں انہی کو لاکر تو بازار میں بٹھانا پڑے گا تاکہ میونسپلٹی کے پیشاب خانوں کی طرح وہ آوارہ مزاج مردوں کیلئے رفع حاجت کا محل بنیں۔ ان سے عورت کی تمام شریفانہ خصوصیات چھینی جائیں، انھیں باز فروشی کی تربیت دی جائے، انھیں اس غرض کیلئے تیار کیا جائے کہ اپنی محبت، اپنے دل، اپنے جسم، اپنے حسن اور اپنی اداؤں کی ہر ساعت ایک نئے خریدار کے ہاتھ بیچیں اور کوئی نتیجہ خیز و بار آور خدمت کرنے کے بجائے تمام عمر دوسروں کی نفس پرستی کیلئے کھلونا بنی رہیں۔
(4 زنا کے جواز سے نکاح کے تمدنی ضابطہ کو لامحالہ نقصان پہنچتا ہے بلکہ انجام کار نکاح ختم ہوکر صرف زنا ہی زنا رہ جاتی ہے۔ اول تو زنا کا میلان رکھنے والے مردوں اور عورتوں میں یہ صلاحیت ہی بہت کم باقی رہ جاتی ہے کہ صحیح ازدواجی زندگی بسر کرسکیں؛ کیونکہ جو بدنیتی، بدنظری ، ذواقی اور آوارہ مزاجی اس طریق کار سے پیدا ہوتی ہے، اور ایسے لوگوں میں جذبات کی جو بے ثباتی اور خواہشات نفس پر قابو نہ رکھنے کی جو کمزوری پرورش پاتی ہے وہ ان صفات کیلئے سمِّ قاتل ہے جو ایک کامیاب ازدواجی تعلق کیلئے ضروری ہیں۔ وہ اگر ازدواج کے رشتہ میں بندھیں گے بھی تو ان کے درمیان وہ حسن سلوک، وہ سہیوگ، وہ باہمی اعتماد اور وہ مہر وفا کا رابطہ کبھی استوار نہ ہوگا جس سے اچھی نسل پیدا ہوتی ہے اور ایک مسرت بھرا گھر وجود میں آتا ہے۔ پھر جہاں زنا کی آسانیاں ہوں وہاں عملاً یہ ناممکن ہے کہ نکاح کا تمدن پرور طریقہ قائم رہ سکے؛ کیونکہ جن لوگوں کو ذمہ داریاں قبول کئے بغیر خواہشاتِ نفس کی تسکین کے مواقع حاصل ہوں انھیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ نکاح کرکے اپنے سر پر بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ لادیں؟
(5 زنا کے جواز اور رواج سے نہ صرف تمدن کی جڑکٹتی ہے بلکہ خود نسل انسانی کی جڑ بھی کٹتی ہے، جیسا کہ پہلے ثابت کیا جاچکا ہے۔ آزادانہ صنفی تعلق میں مرد اور عورت دونوں میں سے کسی کی بھی یہ خواہش نہیں ہوتی اور نہیں ہوسکتی کہ بقائے نوع کی خدمت انجام دیں۔
(6 زنا سے نوع اور سوسائٹی کو اگر بچے ملتے بھی ہیں تو حرامی بچے ہوتے ہیں۔ نسب میں حلال و حرام کی تمیز محض ایک جذباتی چیز نہیں ہے جیسا کہ بعض نادان لوگ گمان کرتے ہیں۔ در اصل متعدد حیثیات سے حرام کا بچہ پیدا کرنا خود بچے پر اور پورے انسانی تمدن پر ایک ظلم عظیم ہے۔ اول تو ایسے بچے کا نطفہ ہی اس حالت میں قرار پاتا ہے جبکہ ماں اور باپ دونوں پر خالص حیوانی جذبات کا تسلط ہوتا ہے۔ ایک شادی شدہ جوڑے میں صنفی عمل کے وقت جو پاک انسانی جذبات ہوتے ہیں وہ ناجائز تعلق رکھنے والے جوڑے کو کبھی میسر ہی نہیں آسکتے۔ ان کو تو مجرد بہیمیت کا جوش ایک دوسرے سے ملاتا ہے اور اس وقت تمام انسانی خصوصیات برطرف ہوتی ہیں، لہٰذا ایک حرامی بچہ طبعاً اپنے والدین کی حیوانیت ہی کا وارث ہوتا ہے۔ پھر وہ بچہ جس کا خیر مقدم کرنے کیلئے نہ ماں تیار ہو نہ باپ، جو ایک مطلوب چیز کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ناگہانی مصیبت کی حیثیت سے والدین کے درمیان آیا ہو، جس کو باپ کی محبت اور اس کے وسائل بالعموم میسر نہ آئیں جو صرف ماں کی یک طرفہ تربیت پائے اور وہ بھی ایسی جس میں بے دلی اور بیزاری شامل ہو، جس کو دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، ماموں اور دوسرے اہل خاندان کی سرپرستی حاصل نہ ہو، وہ بہر حال ایک ناقص و نامکمل انسان ہی بن کر اٹھے گا۔ نہ اس کا صحیح کیرکٹر بن سکے گا نہ اس کی صلاحیتیں چمک سکیں گی، نہ اس کی ترقی اور کار پردازی کے پورے وسائل بہم پہنچ سکیں گے۔ وہ خود بھی ناقص، بے وسیلہ، بے یار و مددگار اورمظلوم ہوگا اور تمدن کیلئے بھی کسی طرح اتنا مفید نہ بن سکے گا جتنا وہ حلالی ہونے کی صورت میں ہوسکتا تھا۔
آزاد شہوت رانی کے حامی کہتے ہیں کہ بچوںکی پرورش اور تعلیم کیلئے ایک قومی نظام ہونا چاہئے تاکہ بچوں کو ان کے والدین اپنے آزادانہ تعلق سے جنم دیں اور قوم ان کو پال پوس کر تمدن کی خدمت کیلئے تیار کرے۔ اس تجویز سے ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی آزادی اور ان کی انفرادیت محفوظ رہے اور ان کی نفسانی خواہشات کو نکاح کی پابندیوں میں جکڑے بغیر تولید نسل و تربیت اطفال کا مدعا حاصل ہوجائے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کو موجودہ نسل کی انفرادیت اتنی عزیز ہے وہ آئندہ نسل کیلئے قومی تعلیم یا سرکاری تربیت کا ایسا سسٹم تجویز کرتے ہیں جس میں انفرادیت کے نشو و نما اور شخصیت کے ارتقاء کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اس قسم کے ایک سسٹم میں جہاں ہزاروں لاکھوں بچے بیک وقت ایک نقشے ایک ضابطے اور ایک ہی ڈھنگ پر تیار کئے جائیں، بچوں کا انفرادی تشخص کبھی ابھر اور نکھر ہی نہیں سکتا۔ وہاں تو ان میں زیادہ سے زیادہ یکسانی اور مصنوعی ہمواری پیدا ہوگی۔ اس کارخانے سے بچے اسی طرح ایک سی شخصیت لے کر نکلیں گے جس طرح کسی بڑی فیکٹری سے لوہے کے پرزے یکساں ڈھلے ہوئے نکلتے ہیں۔ غور تو کرو انسان کے متعلق ان کم عقل لوگوں کا تصور کتنا پست اور کتنا گھٹیا ہے۔ یہ باٹا کے جوتوں کی طرح انسانوں کو تیار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ بچہ کی شخصیت کو تیار کرنا ایک لطیف ترین آرٹ ہے۔ یہ آرٹ ایک چھوٹے نگار خانے ہی میں انجام پاسکتا ہے، جہاں ہر مصور کی توجہ ایک ایک تصویر پر مرکوز ہو۔ ایک بڑی فیکٹری میں جہاں کرایہ کے مزدور ایک ہی طرز کی تصویر لاکھوں کی تعداد میں تیار کرتے ہوں۔ یہ آرٹ غارت ہوگا نہ کہ ترقی کرے گا۔
رابط۔9831439068
[email protected]