ریم 11 اور کشمیر؟ لمحۂ فکریہ

فاضل شفیع فاضل۔اننت ناگ

جُوا اردو میں قماریا قمار بازی کہلاتا ہے، ایک مقابلہ ہے جس میں ایک کھلاڑی کسی واقعے( مثلا ہار یا جیت) پر شرط لگاتا ہے اور یہ شرط عام طور پر رقم کی صورت میں ہوتی ہے۔ شرط اور اس پر لگائی گئی رقم کا فیصلہ اس واقعے کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے طے کر لیا جاتا ہے۔ جو بُرائیاں ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں ان میں ایک ’’جُوا‘‘بھی ہے، جس کے جال میں پھنس کر کئی لوگ برباد ہو چکے ہیں۔ عادی جواریوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ،جنہوں نے محض تفریح کے لیے چھوٹی چھوٹی رقم لگانے سے جُوا کھیلنے کا آغاز کیا مگر رفتہ رفتہ اس ناسور کے ایسے عادی ہوگئے کہ اب جوے کی لت چھوڑنا ان کے لئے دشوار بن چکا ہے۔ قرآن میں بھی متعدد مقامات پر اس کا تذکرہ ملتا ہے اور اس فعل کو ’’اثم اکبر‘‘ سے تعبیر کیا ہے نیز اس کا ذکر شراب کے ساتھ کیا ہے گویا ایک قمار اور ایک شرابی قرآن کی نظر میں برابر ہیں۔

بات اگر اپنی وادی کشمیر کی کریں تو یہاں ڈریم 11 کی صورت میں جوا کھیلنے کا عمل چند سال سے چلتا آ رہا ہے جس میں بچوں اور جوانوں کی ایک خاصی تعداد شامل ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق کشمیر میں ڈریم 11 پر تین لاکھ رجسٹرڈ صارفین ہیں جبکہ 50 ہزار صارفین روزانہ ڈریم 11 پر جوا کھیلنے میں مشغول ہیں اور محض ایک مہینے میں 15 کروڑ روپے ڈریم 11 کے ذریعے قمار بازی پر صرف ہوتے ہیں۔ 15 کروڑ ایک بہت بڑی رقم ہے۔ اپنے جال میں پھنسانے کے لئے ڈریم الیون پہلے مفت میں لالچ دے کر صارفین کو اس کھیل کا حصہ بناتے ہیں اور پھر معمولی دس یا بیس روپے رقم خرچ کرنے پر کروڑوں کی لالچ دی جاتی ہے۔

 

لسی پورہ پلوامہ کے ایک شخص نے ایک کروڑ کی لالچ میں آکر اپنی آبائی زمین بیچ کر ابھی تک79 لاکھ روپے قمار بازی میں اُڑا لئے ہیں۔ شوپیان میں ایک جواں سال لڑکے نے دو لاکھ روپے ڈریم الیون پر صرف کئے، حالانکہ اسے ایک پیسہ جیتنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ سری نگر میں مقیم دو لڑکے ابھی تک اس کھیل میں دس لاکھ کی رقم لٹا چکے ہیں۔ اسی طرح سری نگر کاہی ایک اور شخص ابھی تک گیارہ لاکھ روپے ڈریم الیون پر لگا چکا ہے اور ہر بار ناکامی اس کا مقدر تھی۔ ان سب ڈریم الیون کے کھلاڑیوں سے بات کرنے پر پتہ چلا ہے کہ یہ سب لوگ اپنی ہار پر پچھتا رہے ہیں لیکن اب پچھتانے کیا جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔

 

یہ سارا پیسہ غیر قانونی طور پر صرف ہو رہا ہے جو کہ مالی کمزوری کا باعث بن رہا ہے۔ کشمیر کے کئی لڑکوں نے جیت کی امید میں ڈریم الیون پر لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنے خاندان کو بھیک مانگنے کےقریب پہنچایا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے کشمیر سے دیگر ریاستوں میںقوم کی منتقلی تشویش کی تہہ تک جا پہنچی ہے۔ کشمیر میں ڈریم 11 کی موجودگی سے اُبھرنے اور چونکا دینے والے اعداد و شمار اور کہانیاں ہمارے معاشرے میں بڑھتے جرائم کی عکاس بن رہی ہے۔ پیسے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں چوری اور ڈاکہ زنی جیسے جرائم جنم لیتے ہیں۔ ساتھ ہی ڈریم الیون پر پیسے ہار جانے کے بعد اکثر نوجوان نشہ خوری کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ گویا قمار بازی محض پیسے اُڑانے کا ہی نہیں بلکہ نشہ اور چوری جیسے جرائم کو پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

 

اپنے بچوں کو جُوے جیسی مہلک بیماری سے بچانے میں والدین کو اپنی ذمہ داریوں سے کام لینے کی سخت ضرورت ہے۔ ایک ماں باپ کا فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کو ڈریم الیون کھیلنے سے گریز کریں اور ساتھ ہی اس کے نقصانات سے ان کو آگاہ کریں۔ دوسری جانب سرکار اور اسٹیک ہولڈرز کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں ڈریم الیون پر روک لگائے۔ملک کی بعض ریاستوں میں پہلے سے ہی ڈریم الیون پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
[email protected]